🔹🔹🔹 توکل علی اللہ🔹🔹🔹
راستہ چلنے والا اگرچہ سینکڑوں ہنر رکھتا ہو پھر بھی توکل ضروری ہے۔ اپنے جبار خدا پر بھروسہ کرو تاکہ مراد تک پہنچو۔
🔵 ارشادِ باری تعالٰی ہے:
إذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ إنَّ الله یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِینَ۔
جب کسی عمل کا ارادہ کرو تو اللہ تعالٰی پر توکل کرو کیونکہ خداوندمتعال اپنے اوپر بھروسہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
🔵 خدا تعالٰی فرماتا ہے:
وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ فَھُوَ حَسْبُہُ۔
اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ اللہ اسے کافی ہوتا ہے۔
🟠 رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:
مَنْ سَرَّہُ اَنْ یَّکُوْنَ اَقْوَی النَّاسِ فَلْیَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ۔
جو چاہتا ہو کہ سب لوگوں سے طاقتور ہو، خدا پر بھروسہ کرے.
🔸 حضرت ابراہیمؑ کا توکل
جب بت پرستوں نے حضرت ابراہیمؑ سے اپنے بتوں کو توڑنے کا انتقام لینے کے لئے منجیق میں ڈالا اور ہوا میں اچھال کر دہکتی ہوئی بلند شعلہ آگ کے سمندر میں پھینک دیا، آسمان و زمین کے درمیان آگ میں اترنے کے سفر کے دوران مقرب فرشتہ آپ کے سامنے ظاہر ہوا اور پوچھا:
اے خلیل خدا! کوئی حاجت ہو تو بتاؤ، میں فوری طور پر آپ کے لئے انجام دے سکتا ہوں۔
حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا؛
مجھے آپ سے کوئی حاجت نہیں ہے۔ مجھے صرف بے نیاز خدا سے حاجت ہے۔ میرے سب راز اس پر عیاں ہیں اور اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ خود بہتر جانتا ہے کہ اپنے ضرورت مند بندے کے لئے کیا کرے۔ اسی اثنا میں حکمِ خدا سے آگ گل و ریحان میں بدل گئی۔ اور باعثِ سلامتی قرار پائی۔
🔵 بہترین سرپرست
ایک دن حضرت عزرائیلؑ ملک الموت حضرت موسٰیؑ کے پاس آئے جب حضرت موسٰیؑ نے انہیں دیکھا تو پوچھا کیسے آنا ہوا؟ ملاقات کے لئے آئے ہو یا قبضِ روح کے لئے آئے ہو۔؟
ملک الموت نے کہا؛
قبضِ روح کے لئے آیا ہوں۔
حضرت موسٰیؑ نے والدہ اور خاندان کے باقی افراد سے الوداع کے لئے مہلت چاہی۔ بیوی بچوں سے آخری ملاقات کر لوں۔
ملک الموت نے فرمایا؛
مجھے اس کا اختیار اور اجازت نہیں ہے۔
حضرت موسٰیؑ نے فرمایا؛
اچھا تو پھر ایک سجدہ کرنے کی مہلت دے دو۔
جس کی مہلت مل گئی اور حضرت موسٰیؑ سجدے میں چلے گئے۔ سجدے میں جاکر دعا کی۔۔
خدایا! ملک الموت کو حکم فرما کہ مجھے والدہ اور اہل و عیال سے الوداع کے لئے جانے دیں۔
خداوندمتعال نے حضرت عزرائیلؑ کو حکم دیا کہ موسٰیؑ کی روح کے قبض کو مؤخر کردے۔
حضرت موسٰیؑ اپنی والدہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:
والدہ گرامی مجھے معاف کر دیں، میں ایک سفر پر جا رہا ہوں۔
ماں نے پوچھا؛
کونسا سفر۔؟
حضرت موسٰیؑ نے جواب دیا؛
سفرِ آخرت پر۔
ماں نے رونا شروع کر دیا اور حضرت موسٰیؑ نے الوداعی بازو والدہ کے گلے میں ڈال دیے۔ ماں سے جدا ہوکر اپنی بیوی اور بچوں کے پاس گئے۔ حضرت موسٰیؑ کا ایک چھوٹا بچہ تھا جس سے آپؑ کو زیادہ ہی محبت تھی۔ بچے نے حضرت موسٰیؑ کے پیراہن کا دامن پکڑ لیا اور زاروقطار رونے لگا۔ حضرت موسٰیؑ بھی سخت متأثر ہوئے، آپ سے بھی رہا نہ گیا۔ آپ بھی گریہ کرنے لگے۔
خداوندمتعال کی طرف سے خطاب ہوا؛
موسٰیؑ جو آپ ہماری ملاقات کے لئے ہمارے پاس آ رہے ہو تو رونا کس لئے؟
حضرت موسٰیؑ نے عرض کیا؛
پروردگار عالم مجھے اپنے بچوں کے لئے رونا آرہا ہے کیونکہ مجھے اپنے بچوں سے بہت زیادہ محبت ہے۔
خطابِ خداوندی آیا؛
موسٰیؑ ذرا اپنا عصا دریا میں مارو۔
حضرت موسٰیؑ نے عصا مارا۔ دریا پھٹ گیا ایک سفید پتھر نظر آیا جس میں سے ایک کمزور کیڑا پتھر کے اندر بیٹھا ہوا دیکھا جس کے منہ میں سبز پتا تھا اور وہ اسے چبانے میں مشغول تھا۔
خداوندمتعال نے حضرت موسٰیؑ سے خطاب فرمایا؛
موسٰی اس دریا کی تہہ اور اس پتھر کے اندر اس کمزور سے کیڑے کو نہیں بھولتا ہوں تو کیا تیرے بچوں کو بھول جاؤں گا۔؟ اطمینانِ خاطر سے چلے آؤ کہ میں ان کا بہترین نگہبان ہوں۔
حضرت موسٰیؑ نے عزرائیلؑ سے فرمایا؛
اپنے کام کو انجام دو اور پھر آپ کی روح قبض ہوگئی۔
ــــــــــــــــ✍🏻
✍🏻 حوالہ جات:
📚 سورہ آل عمران، آیت159
📚 سورہ طلاق، آیت3۔
📚 میزان الحکمۃ:22645۔
📚 نشان از بے نشان ہا، ج1، ص434۔
📚 داستانہائے وپندہا، ج4، ص137 تا 139۔
.: Weblog Themes By Pichak :.