واجبات نماز

واجبات نماز



تاريخ : جمعه ۱۴۰۲/۰۸/۲۶ | 10:21 AM | نویسنده : زاھد حسین محمدی |

امامت قرآن مجید میں

شیعہ نقطہ نظر سے امامت سے مراد دینی پروگرام کا نفاذ ، شرعی احکام و ضوابط کا نفاذ اور سماج کے درمیان عدالت کا رائج کرنا اس کے ساتھ ظاہری اور باطنی طور پر روح کی تعلیم اور پرورش کا عمل ہے۔

اور امامت منصب من اللہ ہے یعنی امامت کا عھدہ خدا کی طرف سے ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین تاکہ لوگوں کی ھدایت اور رھبری دنیاوی اور آخرت کے کاموں میں اپنے عھدے لیا ہے تاکہ لوگوں کی ھدایت کریں.

آیات اور روایات میں آیا ہے عھدہ امامت عھدہ نبوت سے بالاتر ہے جس طرح خداوند عالم کا ارشاد ہو رہا ہے:

وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا ۔

بعض انبیاء علیہم السلام نے بھی بہت امتحانات اور مشکلات کو طی کرکے امامت کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اللہ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اپنا خاص بندہ بنایا ہے خداوند عالم نے ابراھیم کو نبوت، رسالت، خلیل پھر امام بنایا ان تمام بڑے مقامات پر ابراھیم ع کو فائز کیا یہ سب مقام حضرت ابراھیم میں جمع کیئے لیکن جب حضرت ابراھیم ع امامت کے عھدہ اور مقام و فضلیت سے آگاہ ہوئے تو حضرت ابراھیم نے ان سب مقامات میں سے فقط عھدے امامت اپنی اولاد نسل کے لئے بارگاہ رب العزت میں درخواست کی ہے اس سے سے پتا چلتا ہے کہ امامت نبوت سے بالاتر ہے.

124۔ الٰہی دعوت کے بانی، ارتقائی سفر کے میرکارواں، تحریکِ جہاد کے اولین قائد، بیت اللہ کے معمار، اللہ کی راہ میں پہلے مہاجر اور تاریخ انسانیت کے عظیم بت شکن ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ کا ذکر ہے ۔
آپ تین بڑے پیشواؤں حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ علیہما السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد اعلیٰ ہیں۔ قدیم کلدانی سلطنت بابل اور موجودہ عراق کے ایک شہر اور میں پیدا ہوئے۔ آپؑ نے اپنے فرزندوں کے ذریعے دنیا میں دعوت توحید کے دو مراکز قائم کیے۔ ایک مکہ میں اور دوسرا فلسطین میں۔ حضرت اسماعیل ؑ کو مکہ اور حضرت اسحاق ؑکو فلسطین میں متعین فرمایا۔ قریش حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد ہیں اور بنی اسرائیل حضرت اسحاق ؑ کی۔
یہودیوں کی بد عہدی اور نا شکری، منصب امامت کو ظالموں سے دور رکھنا، بیت اللہ کی تعمیر، اسے پاکیزہ رکھنے کی ذمہ داری سونپنا، تبدیلی قبلہ، نسل اسماعیل ؑ کے لیے دعا، یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ انسانیت کی امامت کے لیے نسل اسرائیل کی جگہ اولاد اسماعیل کو منتخب کر لیا گیا ہے۔
اللہ کا فضل و کرم اندھی بانٹ نہیں، بلکہ استحقاق اور اہلیت کی بناء پر ہے اور استحقاق پرکھنے کے لیے امتحان اور میدان عمل ضروری ہیں۔
بعض علماء نے فرمایا ہے: لوگوں کی چار قسمیں ہو سکتی ہیں : وہ لوگ جو ساری زندگی ظالم رہے ہوں۔ جو آخری عمرمیں ظالم رہے ہوں۔ جو ابتدائی زندگی میں ظالم رہے ہوں۔ جو زندگی میں کبھی ظالم نہ رہے ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ پہلی اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے امامت کی خواہش کرتے۔ باقی دو قسمیں رہ جاتی ہیں، جن میں سے ایک کے لیے امامت کی نفی کی ہے۔ بنا برایں چوتھی قسم کے لیے امامت ثابت ہو جاتی ہے اور ساتھ عصمت بھی ۔

پژوھشگر: زاھد حسین محمدی مشھدی



تاريخ : دوشنبه ۱۴۰۲/۰۸/۲۲ | 5:12 PM | نویسنده : زاھد حسین محمدی |

حدیث ثقلین إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي

وَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ:

إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي ما إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بهما لَنْ تَضلُّوا أبَداً و إنّهما لَنْ يَفْتَرِقا حَتى يَرِدا عَلَيَّ الحَوْضَ.

میں تمھارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رھا ھوں ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اھل بیت(ع) ھیں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رھوگے ھرگز گمراہ نہ ھوگے یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ھوں گے ،یھاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پہ پھنچ جائیں.

إرشاد القلوب ج۱ ص



تاريخ : پنجشنبه ۱۴۰۲/۰۸/۱۸ | 2:2 PM | نویسنده : زاھد حسین محمدی |