🔹 تدوین فقہ اور امام صادق (علیہ السلام)🔹
✍🏻 یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس افرا تفری کے عالم میں فقہ اسلامی کو اس اصل روح میں محفوظ رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟ واقعہ کربلا اور اس کے تسلسل میں دربارِ شام میں حضرت سیدہ زینب (سلام اللہ علیھا) کے خطبہ نے ثابت کر دیا کہ حق اور نا حق اور سچائی اور گمراہی میں حد فاصل قائم رکھنے کا فریضہ آئمہ حق نے اپنے ذمے لے لیا تھا۔ یہ ذمہ داری ان آئمہ نے نہایت حکمت علمی و عملی سے انجام دی۔ اس کی خاموش ابتداء امام زین العابدین (علیہ السلام) نے اپنی دعاؤں سے کی، جن کے ذریعے امت کے افراد کے ذہنوں کی تربیت کا انتظام کیا گیا۔ بعد ازاں امام محمد باقر (علیہ السلام) نے مدینے میں اپنی درس گاہ میں باقاعدہ درس کا آغاز کیا جس کی بنیادوں کو امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے استوار کیا۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ آپ کو اپنی 65 سال عمر میں سے تقریباً 12 سال اپنے دادا حضرت علی ابن الحسین (علیہ السلان) کی معیت میں اور پھر 19 سال اپنے والد ماجد کے زیر سایہ گزارنے کا موقع ملا اور پھر خود اپنی امامت کے 34 سال میسر ہوئے
۔
✍🏻 دانشگاہ امام جعفر صادق (علیہ السلام)
اس دوران بنی امیہ اور بنی عباس کو اپنی لڑائیوں میں مشغولیت نے آل محمد (علیھم السلام) کی طرف توجہ کرنے کا موقع نہیں دیا۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس درس گاہ کو ایک عظیم دانش گاہ کے رتبہ تک پہنچا دیا۔ یہ ایک ایسی دانشگاہ تھی کہ جسکے نصاب کے دستاویز بہت پہلے ہی امام زین العابدین (ع) نے صحیفہ کاملہ کی شکل میں تیار کر دئیے تھے۔ بظاہر یہ دعاؤں کا مجموعہ اپنے اندر حکمت اور دانائی ، احکام خداوندی ، عبد اور معبود کے تعلقات ، حقوق الناس اور تخلیق کائنات جیسے بہت سے عنوانات پر مشتمل تھا جو پڑھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہے۔
محمد ابن یعقوب کلینی نے 16199 احادیث پر مشتمل اصول کافی بطور تدریسی مواد مہیا کیا جس کو من لا یحضر الفقیہ ، تہذیب اور استبصار نے مزید و سعت دی اور اس طرح تقریباً 60 ہزار احادیث پر مشتمل یہ مایہ ناز سرمایہ بنا، جس کی موجودگی میں ہمارے علماء کو قیاس اور رائے پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی تدوین فقہ کی انہی کوشش کی بناء پر فقہ محمدی کو فقہ جعفری سے موسوم کیا گیا، کیونکہ اس کو فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی سے ممتاز کیا جا سکے۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب باقی فقہوں کو ریاست کی سرپرستی حاصل تھی فقہ جعفری پُر زور مخالفتوں کا مقابلہ کرتی ہوئی پھیلی اور یوں اپنی ترقی کی راہیں طے کرتی رہی۔ اس کے ارتقاء میں قابل ذکر سنگِ میل علامہ حلی ( ساتویں صدی ) علامہ بہبہانی ( گیارہویں صدی ) شیخ مرتضیٰ (تیرہویں صدی ) اور پھر موجودہ دور میں ایران ، عراق، بیروت اور دمشق کے حوزہ علمیہ نے اس کی آبیاری کا فریضہ سنبھالا ہوا ہے۔
موجودہ دور میں فقہ جعفری کی اعلیٰ علمی حلقوں میں پذیرائی کی ایک قابل ذکر مثال مصر کی عظیم دانشگاہ جامعہ الازہر کے چانسلر مفتی علامہ شیخ محمود شلتوت کا ایک منصفانہ اور جرات مندانہ قدم ہے۔ تقریباً بیس سال پہلے انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے اور قوی دلیل کی موجودگی میں ایک مذہب یا فقہ کے ماننے والوں کے لیے دوسرے مذہب کی طرف رجوع کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے اور اس بناء پر انہوں نے قانونی طور پر فتویٰ دیا کہ دوسرے مذہب کی طرح شیعہ فقہ پر بھی عمل صحیح ہے۔ ان کا یہ اقدام قدر و منزلت کا متقاضی ہے۔
*فقہ جعفری* کی برتری کے لیے یہ کہنا کافی ہے کہ دیگر تمام فقہوں کے بانی بالواسطہ یا بلا واسطہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے شاگرد تھے اور اس پر ان کو ناز بھی تھا۔ فقہ جعفری میں دور جدید کی ضروریات کے مطابق اجتھاد کے ذریعے انسانی مسائل کے حل کی تمام صلاحتیں موجود ہیں۔ یہ ایک عادلانہ نظام ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز کی راہ بتاتا ہے، جہاں خوشی کے موقعوں پر خوشی کے اظہار کا ڈھنگ اور آلام و مصائب میں تعزیت کے اسلوب بتائے جاتے ہیں۔ جہاں اکابرین کے کارناموں کو اجاگر کیا جاتا ہے اور عبرت کے نشانات سے دوری سکھائی جاتی ہے یہ ایک صالح معاشرے کے قیام میں مدد دیتا ہے۔
ــــــــــــــ✍🏻
سيرة الأئمة المعصومين عليهم السلام
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
https://chat.whatsapp.com/IZ8L3TCtCfv7DHf0Fq06vY
.: Weblog Themes By Pichak :.