حضرت امام علی علیہ السلام کی مختصر سوانح حیات

ولادت  با سعادت حضرت امام علی علیہ السلام

حضرت مولای متقیان امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام 13 رجب 30 عام الفیل ےیعنی ھجرت نبوی سے 30 سال پہلے کعبہ کے اندر والادت مبارک ہوئی ۔

سید حمیری ،حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولادت کا تذکرہ کرتے ھوئے کھتے ھیں۔

 

ولدتہ فی حرمِ إلا لہ و اٴمنہ

والبیت حیث فنائہ والمسجدُ

 

بیضاء طاھرة الثیاب کریمة

طابت وطاب ولےدھا والمولدُ

 

فی لےلة غابت نحوس نجومھا

وبدت مع القمر المنےر الاسعدُ

 

ما لُفَّ فی خرق القوابل مثلہ

الا ابن آمنة النبی محمد

 

صرف اس خاتون نے حرم الٰھی اور جائے امن میںاسے پےدا کیا اور بیت اللہ اور مسجد اس کے آنگن کی حیثیت رکھتا ھے۔وہ چمکدار لباس، پاکےزگی سے مزّےن اور شرافت والی ھے۔ یہ ایک ایسی رات تھی جب نحس ستارے چھپ گئے اور قمر منےر کے ساتھ یہ نےک اور سعید ستارہ نمودار ھوا، وہ پاک ھے اس کا مولود بھی پاک ھے اور اس کی جائے ولادت بھی پاک ھے اس جیسے (نجیب) کو قنداق نھیں کیا جا سکتا مگر آمنہ کے لال نبی احمد(ص)کے ہاتھ سے۔

حضر ت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ بنت اسد علیھاالسلام سے فرمایا:

اس کو میرے بستر کے قریب رھنے دیا کرو ۔اکثرحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی تربیت کے فرائض انجام دیتے ، نھلانے کے وقت ان کو نھلاتے، بھوک کے وقت دودھ پلاتے، نیند کے وقت جھولا جھلاتے اور بیداری کے وقت ان کو لوریاں سناتے تھے ۔اپنے سینے اور کندھوں پر سوار کرکے فرمایا کرتے تھے۔ یہ میرا بھائی ،ولی ،مددگار، وصی، خزانہ اور قلعہ ھے۔

مستدرک میں حاکم کھتے ھیں کہ اس سلسلے میں تواتر کے ساتھ روایات موجود ھیں کہ جناب فاطمہ بنت اسد نے حضرت امیر المومین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوخانہ کعبہ میںجنا۔

کتاب نور الابصار میں اس طرح ذکر ھوا ھے : حضرت علی علیہ السلام مکہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ھوئے ۔ایک قول کے مطابق آپ کی ولادت ۱۳ رجب ،۳۰ عام الفیل، بروز جمعہ ھوئی یعنی ھجرت سے ۲۳ سال پھلے اور بعض مؤرخےن کے مطابق ۲۵ سال پھلے یعنی بعثت سے ۱۲ سال پھلے اوربعض کھتے ھیں کہ بعثت سے ۱۰ سال پھلے پیدا ھوئے اور آپ سے پھلے کوئی بھی بیت اللہ میں پیدا نھیں ھوا ۔

 

 

اسم گرامی

پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا ۔ حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔

کنیت

ابوالحسن ، ابوالحسین ، ابوالحسنین ، ابوالسبطین ، والرحانشین اورابوتراب ۔ان میں سے زیادہ معروف کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہیں ۔

القاب

امیرالمومنین ، سید الوصین ، سیدالمرسلین ، سید الاوصیا ، سیدالعرب ، خلیفۃ الرسول ، امام المتقین ، یعسوب الدین ، مصر رسول اللہ ، حیدر ، مرتضی، وصی وغیرہ ۔

والدین

آپ کے والد گرامی حضرت ابو طالب بن عبد المطلب  حضرت عبداللہ کے حقیقی بھائی تھےاور ان کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت عمر وبن عایذ مخزونی تھی۔

حضرت علی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد بن ھاشم ان عبد المناف تھیں جو کہ ان خواتین سے ہے جس نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے میں سبقت حاصل کی ہے۔ایام حضور کی تلخ دورکی سختیاں شوھر اور اھل خانوادہ کے ھمراہ جھیلیں اور پیغمبر اسلام کی ھجرت کے وقت انہوں نے بھی مدینہ ھجرت کی اور اسی مقدس شہر میں وفات پائی ۔ اور پیغمبر )ص( نے اپنی قمیض کو کفن کے طور انکو دفن کیا تاکہ زمین اور قبر کے آزار سے امان میں رہے اور اپنے بیٹے حضرتعلی ابن ابی طالب کی ولادت کے اقرار کی تلقین کرائی تاکہ نکیرین کے سوالات کے وقت آسانی کے ساتھ جواب دیے سکے ۔ رسول خدا )ص( نے اس طرح انکا احترام کیا اور اس عظیم فضل کا اھل قرار دیا ۔

حضرت علی علیہ السلام کی تربیت :

خدا کی ایک سب سے بڑی موہبت اور نعمت جو آپ کونصیب ہوئی وہ یہ تھی کہ حضرت علی علیہ السلام ابھی دس سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ ؑ کی تربیت اور تذکیہ کا وظیفہ پیغمبر اکرم ؐ نے اٹھایا ۔پیغمبراکرم ؐ نے اپنے خلق خو اور اپنی بزرگواری اور بڑھائی کے ذریعے آپ ؑ کی تربیت شروع کی اور کسی بھی حالت میں پیغمبراکرمؐ آپ کو اپنے سے جدا نہیں کرتے تھے ۔( سیرہ ابن ہشام ج ٢ ص ٢٦٢، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١ ص١٤۔)

حضرت علی علیہ السلام خود اسی بارے میں فرماتے ہیں : وضعنی فی حجرۃ وانا ولدٌ یضمّنی الی صدرہ ، وتکْنفنی فی فراشہ ویمسُّنی جسدہ، ویشُمُّنی عرفہ وما وجدلی کذبۃً فی قولٍ ، ولاخطلۃً فی فعل ... أریٰ نورالوصی والرسالۃ وأشمُّ ریح النبوۃ ۔( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ١٣ ص ١٩٧ خطبہ ٢٣٨۔) ۔

میں ایک چھوٹا بچہ تھا جب مجھے پیغمبر اکرم ؐ نے اپنی آغوش میں لیا اوراپنے سینے سے لگایااوراپنے بسترپہ اپنے نزدیک مجھے سلایا اور میرے بدن سے اپنے بدن کو ملایا اور مجھے نوازش دی اپنی خوشبو کو مجھے سونگھواتے تھے اور اپنے کھانے کو چبا کر مجھے کھلاتے تھے ۔ نہ کبھی جھوٹ بولا اور نہ ہی مجھ سے جھوٹ سنا ۔ میں ہمیشہ ان کی پیروی کرتا تھا ۔ اور ہر روز اپنے اخلاق میں سے کچھ مجھ کو سکھاتے تھے اور تاکیدفرماتے کہ اس پر عمل کروں ۔میں نے وحی کے نور کو دیکھا اور رسالت و نبوت کی خوشبوسے فیض یاب ہوا۔

فضل بن عباس سے روایت ہے میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ پیغمبر اکرم ؐ اپنے بیٹوں میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ جواب دیا: حضرت علی علیہ السلام سے ۔ پیغمبر ؐ کے نزدیک سب سے محبوب کون تھے؟ جواب دیا کہ آپؐ کے نزدیک سب سے محبوب علی علیہ السلام تھے ۔ جب حضرت علی ؑ چھوٹے تھے تو کسی بھی صورت پیغمبرؐ سے جدا نہیں ہوتے تھے ۔میں نے پیغمبر اکرم ؐ سے زیادہ مہربان کسی با پ کو نہیں دیکھااور میں نے علی علیہ السلام سے زیادہ مطیع اور تابع بیٹا نہیں دیکھا۔( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ١٣ ص ٢٠٠۔)

امیر المؤمنین علی علیہ السلام پیغمبر اکرم ؐ کے خاندان اور اصحاب میں سب سے پہلے وہ فرد ہیں جنہوں نے خدا پر ایمان اور آپکی پیغمبری پر ایمان لائے ۔اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو تمام شیعوں اور اکثر اہلسنت کے مورخین نے قبول کیاہے ۔ خود حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : پیغمبر اکرمؐ ہر سال کچھ مدت غار حرا میں گذارتے تھے ۔ ان ایام میں میرے علاوہ کوئی اور آپ ؐ کو نہیں دیکھتاتھا ۔ان ایام میں پیغمبرؐ اورحضرت خدیجہ کے علاوہ کوئی اور اسلام کی طرف نہیں آیا تھا اور میں تیسرا فرد تھا ۔ میں رسالت کے نور کو دیکھتا تھا اور نبوت کی بو کو سونگھتاتھا۔ میں فطرت اسلام میں پیدا ہوا ہوں اور ایمان اور ہجر ت میں سب پر مقدم ہوں ۔( الارشاد، ج١ ،ص٣ ،اسد الغابہ ، ج٤ ص٩١، نہج البلاغہ خطبہ ١٤٦۔)

یہاں پر حضرت علی علیہ السلام کے ان جملات سے مرحوم مولانا کوثر نیازی کی ایک بات یاد آتی ہے کہ مولانا موحوم اپنی کتاب مولا علی علیہ السلام میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ لڑائی کہ پہلے کون مسلمان ہوا تو میں کہتا ہوں کہ حضرت علی علیہ السلام کو اسی جھگڑے میں شامل نہ کریں کیونکہ پہلےمسلمان یا دوسرے مسلمان کی بحث وہاں آتی ہے جہاں پر کوئی شخص پہلے کسی دین یا مذہب میں رہے اور اس سے پلٹ کر دوسرا دین اختیار کرے لیکن حضرت علی علیہ السلام تو پہلے سے ہی مسلمان تھے کسی اور دین کو انہوں نے اختیار ہی نہیں کیا کہ بحث کریں پہلے مسلمان حضرت علی ؑ ہے یا نہیں ۔ کیونکہ خود حضرت علی ؑ نے فرمایامیں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور ایمان میں سب سے مقدم ہوں ۔( نہج البلاغہ خطبہ ١٤٦۔)

حضرت علی علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں : کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ میں وہ پہلا فرد ہوں جس نے خدا اور پیغمبر ؐ پر ایمان لایا اور میرے بعد تم لوگ دستہ دستہ اسلام کی طرف مایل ہوئے ۔( عیون اخبار الرضا ،ج ١، ص٣٠٣، دانش نامہ حضرت علی ؑ ،ج ٨ ،ص ١٥١۔)

برہان الدین حلبی شافعی حضرت سلمان فارسی سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبراکرم ؐ نے فرمایا: میری امت میں سب سے پہلے وہ شخص حوض (کوثر ) پر آئے گا جس نے سب سے پہلے ایمان لایا ہو ؛یعنی حضرت علی علیہ السلام اور حضور نے ایک بات اس وقت کہی جب حضرت علی علیہ السلام کی شادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہوچکی تھی پیغمبر ؐ نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: تمہارا شوہر دنیا وآخرت میں تمام لوگوں کا سردار ہے کیوں کہ وہ اصحاب میں سے پہلا فرد ہے جو مجھ پر ایمان لائے ۔( السیرۃ الحلبیہ ،ج ١، ص٢٦٨۔)

 

اعلان ولایت حضرت علی علیہ السلام:

حضرت علی علیہ السلام جس دن سے پیغمبر اکرم ؐ کی زیر سرپرستی میں گئے اسی دن کے بعد سے لیکر شہادت کی رات تک کسی بھی وقت اور کسی بھی لمحہ دفاع از رسالت اور دین الہی سے پیچھے نہیں ہٹے ۔ نبوت کے شروع ہوتے ہی پیغمبر اکرم ؐ کو مأموریت ملی کہ سب سے پہلے اپنے قبیلے والوں کو دعوت اسلام دیں ۔ آیہ شریفہ وانذر عشیرتک الاقربین (سورہ شعراء آیت ٢١٤۔)کے ذریعہ پیغمبراکرمؐ کو اس کام کی مأموریت ملی کہ قبیلہ والوں کودین خدا کی طرف بلاؤاور ان کو خدا کی نافرمانی سے ڈراؤ ۔

پیغمبراکرمؐ نے حضرت علی ؑ کو حکم دیا کہ کھانا تیار کرو اور اولاد عبدالمطلب میں سے چالیس مرد اور خواتین کو دعوت دی کھانے کے بعد پیغمبراکرمؐ تین مرتبہ کھڑے ہوئے اور فرمایا : تم میں سے کون ہے جو میری مدد کرے تاکہ وہ میرا بھائی وصی اور میرا جانشین بنے ؟ تینوں دفعہ سب نے اپنے سروں کوجھکادیا سوائے حضرت علی ؑ کے جو اس محفل میں سب سے چھوٹے تھے کھڑے ہوئے اور ہر تینوں دفعہ آپؐ کی تصدیق کی اور اعلان کی اس وقت پیغمبراکرمؐ نے فرمایا ؛ یہ علی ! میرا بھائی ، وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین ہے تم سب پر لازم ہے اس کے احکام کو سنو اور اس پر عمل کرو۔اس بات پر سب کے سب ہنسنے لگے اور حضرت ابوطالب کو مخاطب کرکے کہا : محمدؐ تجھے حکم دے رہا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی اطاعت کرو۔

پس یوم الانذار وہ پہلا دن ہے جس دن ولایت و جانشینی حضرت علی ؑ کا اعلان ہوا۔( تاریخ طبری ، ج٢ ، ص ٣٢٠، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج ١٣ ص ٢١٠، بحار الانوار ج ٥ ٣ص١٧٤۔)

اس کے بعد تاریخ میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ بہت جگہ تصدیق اور بہت سی جگہ عملاً حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اور جانشینی کا اعلان فرماتے رہے ۔ ہجرت سے لیکر غدیرتک تاریخ کے اوراق پیغمبر اکرم ؐ کی حدیثوں سے بھری ؎ہوئی ہیں جن میں آپ کی ولایت کا اعلان اور آپ ؑ سے محبت کی قدر و منزلت اور آپؑ کے دفاع اور پیروی کا حکم ملتا رہا۔مگر تاریخ اسلام کا سب سے تاریخی واقعہ ١٨ذالحجہ سال دس ہجری پیر کے دن غدیر کے میدان میں رونما ہوا ۔ پیغمبر اکرم ؐ مکہ سے مدینہ کی جانب حرکت میں تھے جب قافلہ غدیر خم پر پہنچا تو پیغمبر اکرم ؐ نے سواری کا رخ غدیر کے مقام کی طرف موڑا اور لوگوں سے فرمایا: یاایھاالنّاس اجیبوا داعی اللہ انا رسول اللّہ ۔ اے لوگوں دعوت الہی کی جانب اجابت کرو میں رسول اللہ ہوں ۔ان الفاظ میں جو بات چھپی تھی وہ یہ کہ وہ وقت آن پہنچا ہے جس کا حکم خدا کی طرف سے آیت یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک کے ذریعے دیا گیاہے ۔اور آج اسی حکم اور فرمان الہی کو لوگوں تک پہنچانے کا دن ہے ۔ تمام کاروانوں کو واپس بلایا اور پیچھے سے آنے والوں کا انتظار کیا اور اس کے بعد مقداد ،سلمان اور ابوذر وعمار کے ذریعے اونٹوں کے پلانوں کے ذریعے ایک بہت اونچا منبر بنایا(بحار الانوار ،ج ٢١،ص٣٨٧،ج٩٨،ص٢٩٨، تفسیر العیاشی ،ج٢ ص ٩٧ ، الاحتجاج ، ج١ ،ص٦٦ ۔) اور ظہر کے نزدیک اذان ظہر کے بعد نماز جماعت ادا فرمائی اور اس کے بعد منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ شروع فرمایا۔ اس اجتماع میں تاریخ نویسوں کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار افرادموجود تھے۔ اوریہ تاریخ اسلام کا سب سے تاریخی خطبہ تھا۔

پیغمبر اکرم ؐ نے خطبے میں حمد الہی کے بعد تمام اوامر جوخدا کی طرف سے لوگوں کےلئے نازل ہوئے تھے ان کا تذکر دیا ۔ اور اس کے بعد ولایت اور امامت کا تذکرہ کیا اوروہ وقت پہنچ گیا جب پیغمبر اکرم ؐ نے حضرت علی ؑکو بازوں سے پکڑ کر اونچا کیا اور بلندآوازمیں فرمایا: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ ۔ اور اس کے بعد فرمایا: اللّہم وال من والاہ و عاد من عاداہ یہ وہ موقع تھا کہ خدا کی طرف سے آیہ شریفہ : الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم السلام دیناً(مائدہ آیت ٣۔)کو نازل فرمایا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ولایت علی ؑ کو رسمیت الہی حاصل ہوئی اور ولایت علی ؑ کے ذریعے دین اسلام کو تقویت اور یہی ولایت نعمتوں کی انتہیٰ بنی ۔( احقاق الحق ج ٢١ ص ٥٣الی٥٧ اثبات الہداۃ ج ٢ ص ٢٦٧، اقبال الاعمال ص ٤٥٣، الاصابہ ج٢ ص ٢٥٧ ، اسد الغابہ ج ٣ ص٩٢ الارشاد ص ٨٩ الی ٩٣ بحارالانوار ج ٣٧ ص ٢٠١ الی ٢٠٧، الیقین ص ٣٤٣ باب ١٢٧،۔)

 

حضرت علی علیہ السلام اور اسلامی جہاد: 
اسلام کے دشمنوں نے پیغمبراسلام (ص) کو مدینہ میں چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ جو مسلمان  مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں کچھ کو قتل  کر دیا گیا، کچھ کو قیدی بنا لیا گیا اور کچھ کو مارا پیٹا گیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اسلحہ اور فوج جمع کرکے خود رسول کے خلاف مدینہ پر حملہ  کردیا۔ اس موقع پر رسول اللہ (ص) کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کریں، کیوں کہ انہوں نے آپ کو پریشانی کے عالم میں پناہ دی تھی اور آپ کی نصرت و مدد کا وعدہ کیا تھا، لہذا آپ نے یہ کسی طرح پسند نہیں کیا کہ آپ شہر کے اندر رہ کر  دشمن کا مقابلہ کریں اور دشمن کو مدینہ کی پرامن آبادی میں داخل ہونے اور عورتوں اور بچوں کو پریشان کرنے کا موقع دیں. آپ کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم تھی۔  آپ کے پاس کل تین سو تیرہ آدمی تھے اور آپ کے پاس  ہتھیار بھی نہیں تھے، مگر آپ نے یہ طے کیا کہ ہم  مدینے سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ چنانچہ  یہ اسلام کی پہلی جنگ ہوئی جو آگے چل کر  جنگِ بدر کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس جنگ میں رسول اللہ (ص) نے اپنے عزیزوں کو زیادہ آگے رکھا، جس کی وجہ سے آپ کے چچا زاد بھائی عبید ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ علی علیہ السّلام ابن ابی طالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۲۵برس تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا علی علیہ السّلام کے سر ہی بندھا۔ جتنے مشرکین قتل ہوئے ان میں سے آدھےحضرت علی علیہ السّلام کے ہاتھ سے اور آدھے، باقی مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس کے بعد اُحد، خندق، خیبر اور آخر میں حنین۔ یہ وہ بڑی جنگیں تھیں جن میں حضرت علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ تقریباً ان تمام جنگوں میں علی علیہ السّلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا۔ اس کے علاوہ بہت سی جنگیں  ایسی تھیں جن میں رسول نےحضرت  علی علیہ السّلام کو تنہا بھیجا اور انہوں نے اکیلے ہی بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ فتح حاصل کی اور استقلال، تحمّل اور شرافت  نفس کا وہ  مظاہرہ کیا کہ اس کا  اقرار خود ان کے دشمن کو بھی کرنا پڑا۔ جب خندق کی جنگ میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمرو بن عبدود کو آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کا سر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر سوار ہوئے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعاب دہن پھینک دیا۔ آپ کو غصہ آ گیا اور آپ اس کے سینے سے اتر آٓئے۔ صرف اس خیال سے کہ اگر اس غصّےکی حالت میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل خواہش نفس کے مطابق ہو گا، خدا کی راہ میں نہ ہو گا۔ اسی لئے آپ نے اس کو کچھ دیر کے بعد قتل کیا۔ اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش کو  برہنہ کردیتے تھے، مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری جبکہ  وہ بہت قیمتی تھی۔ چناچہ جب عمرو  کی بہن اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کہا اگر علی کے علاوہ کسی اور نے میرے بھائی کو قتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی، مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر آ گیا کہ اس کا قاتل شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ کیا۔



تاريخ : یکشنبه ۱۳۹۷/۰۱/۱۲ | 11:45 AM | نویسنده : زاھد حسین محمدی |