جلوس عزا

سوال: عزاداری کے لئے جلوس کیوں نکالا جاتا ہے؟

جواب: جلوس کا مطلب احتجاج کرنا ہےدنیا میں سب سے بڑا احتجاج ماتم حسین ہے ہم احتجاج کس کے لئے کرتے ہیں ؟ اس کی وضاحت مدرجہ ذیل ہے.

سوال: جلوس عزا کیوں نکالتے ہیں؟

جواب: جلوس یعنی احتجاج کرنا ہے.

احتجاج کی دو صورتیں ہیں:
۱) انفرادی (۲) اجتماعی

احتاج کے طریقے ( احتجاج کے مخلتلف طریقے ہیں)

1) مظاھرہ demonstration
2) دھرنا picket
3) جلوس rally
4) ھڑتال strike
وغیرہ علی ذالک

مظاھرہ از لحاظ لغوی معنی:
المظاھرۃ‘“ المعاونۃ
ہر تعاون اور معاونت کے معنوں میں آتا ہے.

مظاھرہ کی اصطلاحی معنی:
مظاھرہ یعنی لوگوں کا مطالبات منوانے اپنی قوت کے اظھار کے لئے ظالم کے خلاف اور مظلوم کی حمایت کرنے اور دیگر مقاصد کے لئے سڑکوں پر نکل آنے کا نام ہے.

احتجاج (protest) کے مقاصد:


1️⃣ اپنے جائز مطالبات اور حقوق کے حصول کے لیے.
2️⃣ ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کی حمایت کے لئے.
3️⃣ شعائر اسلام کے تحفظ اور اسلام کی قوت کے اظہار کے لئے.
4️⃣ حاکم وقت کے فیصلے کی حمایت یا مخالفت میں.
5️⃣ منکرات کی روک تھام کے لئے.
6️⃣ قوانین اسلام کی حفاظت کے لئے.

بس جلوس عزا کا مطلب ظالم کے خلاف احتجاج کرنا ہے اور مظلوم کی حمایت کرنی ہے
اور قوانین اسلام کی حفاظت کرنی ہے.
منکرات سے روکنا ہے یعنی جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے روکنا ہے جیسے شراب، زنا، لواط، مسکرات، وغیرہ جتنے بھی محرمات ہیں ان سے روکنا ہے.
اپنے جائز مطالبات کو منوانے کے لئے جلوس نکالتے ہیں.
شعائر اسلام کی حفاظت کے لئے جلوس عزا نکالا جاتا ہے.
اور جلوس عزاء اسلام کی قوت کا نام ہے.
اور ظالم فاسق فاجر حاکم کی مخالفت کا نام جلوس عزا ہے.

ہماری عزادری کا مقصد یزید ظالم فاسق کی مخالفت اور مظلوم مولا حسین ع کی حمایت کے لئے ہے.

سوال: جلوس عزا کا محرم کى راتوں ميں آدھى رات تک مستمر رہنے کا کيا حکم ہے؟ جبکہ ڈھول اور بانسرى کا استعمال بھى کيا جاتا ہے؟

ج۔ سيد الشہداءعليہ السلام اور آپ کے اصحاب عليھم اسلام کے جلوس نکالنا اور اس جيسے دينى مراسم ميں شرکت کرنا مطلوب اور اچھا کام ہے بلکہ اللہ کى قربت حاصل کرنے کا عظيم ترين ذريعہ ہے ليکن ہر ايسے عمل سے پرہيز کرنا چاہيے جو کہ دوسروں کے لئے موجب اذيت ہو يا بذات خود حرام ہو۔

 عزاداری کے اصول و آداب:
کسی بھی عمل سے اس کے مطلوب اور مقررہ نتائج حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ اس عمل کو اس کے متعین قواعد و آداب کے ساتھ انجام دیا جائے۔

ظاہر ہے کہ عزاداری سید الشہداء بھی جب تمام اعمال سے افضل ہے تو، اسکو بھی اس اصول و قانون سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا عزاداری سے بھی اس کے مطلوب نتائج حاصل کرنے کے لیے اس کے دوران بعض اصول و آداب کی پابندی لازم ہے۔ یہ اصول و آداب کیا ہیں ؟ انہیں کہاں سے اخذ کیا جائے ؟ اس مسئلے پر غور و فکر کہ بعد ہم تین ایسے مصادر کا تعین کر پائے ہیں جن سے عزاداری منانے کے اصول و قواعد اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ تین مصادر ہمیں عزاداری کے ذریعے پیش کیے جانے والے مضمون ، اس کے منانے کے انداز و کیفیت اور اس کے مراسم کی درستگی کی حدود سے روشناس کرتے ہیں۔ یہ مصادر درج ذیل ہیں۔

1️⃣ حسین ابن علی (ع) کی تحریک کے مقاصد ،

2️⃣ عزاداری کے بارے مین آئمہ اطہار (ع) کی ہدایات ،

3️⃣ عزاداری کے مراسم کے بارے میں علماء کرام کی ہدایات و نصائح۔

امام حسین ابن علی (ع) کی تحریک کے مقاصد:

سید الشہداء کے فرض منصبی کو ملحوظ رکھا جائے ، آپ کی تحریک کا واقعاتی جائزہ لیا جائے اور اس تحریک کے دوران آپ کے فرامین، مکتوبات اور اقدامات کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام حسین کی تحریک امت کے سیاسی و اجتماعی نظام کی اصلاح کے لیے تھی۔

امام حسین بنی امیہ کے غصبی و مکارانہ اقتدار کے نتیجے میں شریعت کی پامالی ، حدود الہی کے تعطل اور عوام کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ آپ (ع) دیکھ رہے تھے کہ امت کا اقتدار یزید جیسے فاسق ، فاجر ، شرابی اور زانی شخص کے حوالے کر دیا گیا ہے، امت کے امور ایک ایسے شخص کے سپرد کر دیئے گئے ہیں کہ جو کسی بھی طرح سے اس عہدے کا اہل نہیں اور بیعت کے ذریعے اس کے اقتدار کی تصدیق در اصل اسلام کی موت کے پروانے پر دستخط کے مترادف ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس صورتحال پر خاموشی بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ لہذا امام حسین نے یزید کے خلاف تحریک شروع کی اور اپنی حکمت عملی سے اسلام کو نابودی کے خطرے سے نجات دلائی۔

عزاداری کے بارے میں آئمہ اطہار (ع) کی ہدایات:

روایات سے ظاہر ہے آئمہ معصومین اپنے اصحاب اور ماننے والوں کو عاشورہ محرم غم و اندوہ ، حزن و ملال کے ساتھ گزارنے کی ہدایت کرتے تھے ، مصائب کربلا کے بیان اور انہیں سن کر اشک فشانی کی تاکید کرتے تھے ، ان ایام میں ابا عبد اللہ الحسین کے مصائب کے بیان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ آئمہ اطہار اپنے گھروں میں ان مصائب کو سننے، سنانے کا اہتمام کرتے، یہ مصائب سن کر آنسو بہاتے اور اس اشک فشانی پر انتہائی اجر و ثواب اور آخرت میں نجات کی نوید بھی دیتے تھے۔

عزاداری کے مراسم کے بارے میں علماء کرام کی ہدایات و نصائح:

علمائے امامیہ ایام عزا کے خصوصی اہتمام کے ساتھ ساتھ عزاداری کی رسوم کو غیر شرعی امور اور نامناسب اخراجات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی کوشاں رہے ہیں۔ لہذا ان علماء نے عزاداری میں صرف ان امور کی شمولیت کو جائز قرار دیا ہے کہ جن سے کسی قسم کے ضرر اور نقصان کا خوف نہ ہو، یعنی وہ مذہب کے لیے نقصان دہ نہ ہوں اور جن پر عزاداری کا عنوان صادق آتا ہو، یعنی وہ اظہار غم و اندوہ کے منافی نہ ہو۔ اسی طرح یہ امور مذہب کے تمسخر کا موجب بھی نہ ہوں، یعنی انہیں دیکھ کر لوگوں کو مذہب کا مذاق اڑانے کا موقع نہ ملے ، نیز مسلمانوں کے درمیان نفرت و عداوت کا سبب نہ ہوں۔

حتی علماء نے ایسے مباح امور کو انجام دینے سے بھی اجتناب کی تاکید کی ہے جنہیں دیکھ کر مخالفوں کو خوامخواہ سوال و اعتراض اٹھانے اور شکوک و شبہات پھیلانے کا موقع ملے۔

اس تین مصادر کی روشنی میں جو اصول وضع کیے جا سکتے ہیں ، وہ یہ ہیں اور ان پر شدید توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے:

عزاداری یعنی کیا عزاداری کے وقت کیا ہونا:

1️⃣ عزاداری پر رنج و الم اور سوگواری کی فضا طاری ہو۔ اس کے اجتماعات اور رسومات دیکھنے والے پر غم و اندوہ کا تاثر پیدا کریں۔ تا کہ ایک طرف اس کے ذریعے اسلام کی خاطر اٹھائی جانے والی اہل بیت (ع) کی مصیبت اجاگر ہو اور دوسری طرف اس فضا میں بیان کیا جانے والا پیغام سننے والوں کے دل کی گہرائی میں اتر جائے۔

2️⃣ عزاداری محض غم کی داستان کا بیان نہیں بلکہ اس کا پیغام مسلمانوں کے اجتماعی اور انفرادی معاملات میں دین کی حکمرانی کا قیام ہے۔ لہذا اس کے دوران ، خطیبوں و ذاکرین کی تقاریر اور شعراء کے کلام میں حسین ابن علی (ع) ان کے اصحاب ، اہل حرم کے مصائب کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کی ترویج اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات و مسائل کے بارے میں بھی گفتگو ہو۔

تقاریر اور اشعار ایسے مواد پر مشتمل ہوں جو عزاداروں کو وقت کے حسین اور دور حاضر کے یزید کی پہچان کرائیں، نہ صرف پہچان کرائیں، بلکہ انہیں اس حسین کی مدد نصرت اور اس یزید کی مخالفت پر کمر بستہ بھی کریں۔ عزاداری کا بنیادی اور اصل مقصد بھی یہی ہے۔ حسین ابن علی (ع) اپنی تحریک کے ذریعے مسلمانوں میں ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے کہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کے  امور و معاملات سے کسی طور غافل اور لا تعلق نہ ہوں، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے رحجانات اور ان کے خلاف ہونے والے اقدامات سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ انہیں ناکام بنانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہ کریں۔

3️⃣ عزاداری کے اجتماعات اور رسموں میں شرعی اصول اور دینی اقدار پیش نظر رہیں۔ کوئی ایسا عمل انجام نہ دیا جائے جو احکام دینی کے خلاف اور ان سے متصادم ہو، دین کو کمزور کرنے والا ہو، مسلمانوں میں انتشار و افتراق پھیلانے کا موجب ہو، اور ہمارے مذہب کو تماشا بناتا ہو۔

🌻 اہل بیت(ع) کی ثقافت کو زندہ رکھنا:🌻

محرم الحرام کی مجالس اور جلوسوں میں کچھ اصولوں کا خیال رکھنا چاہیے:

 الف: معصوم کی حدیث ہے کہ عزاداری کی مجالس میں اہلبیت کی تعلیمات اجاگر کیا جائے:

قال جعفر بن محمد الصادق (ع)‏ تلاقوا و تحادثوا و تذاكروا فإن في المذاكرة إحياء أمرنا رحم‏ الله‏ امرأ أحيا أمرنا.

امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ: آپس میں ملاقات کرو، اور آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرو، پس جو باتوں باتوں میں ہماے امر (ولایت و امامت) کو زندہ کرے گا تو خداوند اس شخص پر اپنی خاص رحمت نازل کرے گا۔

 بحار الانوار ، ج 1 ، ص 200

خطیب کے منبر پر جانے سے یا ایک نوحہ خواں کے نوحہ پڑھنے سے سامعین کی فکری سطح اور سوچ میں تبدیلی آنی چاہیے۔ اگر خطیب کی تقریر سے لوگوں کے علم میں اضافہ ہوتا ہو اور لوگوں کی فکری سطح اور سوچ میں تبدیلی آتی ہو اور لوگوں کے اخلاق ، کردار اور گفتار میں مثبت تبدیلی آتی ہے، تو اس خطیب اور نوحہ خواں نے اہلبیت کے امر کو زندہ کیا ہے۔ اسی طرح سامعین کو بھی چاہیے کہ خطیب کے نصائح پر عمل کر کے اہلبیت کے امر کو زندہ کریں۔

 ب: معرفت و بصیرت:

مجالس عزاداری میں جو افراد شرکت کرتے ہیں وہ وہاں سے کوئی نئی بات ، علمی ، تاریخی ، فقہی معلومات یا دور جدید کے حوالے سے کچھ حاصل کر کے جائیں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جو خطیب مجلس پڑھ رہا ہے، وہ اپنے مطالعات کو وسعت دے اور ساتھ ساتھ اخلاص کے ساتھ گفتگو کرے تا کہ لوگوں کی معرفت و بصیرت میں اضافہ کر سکے۔

ج:  احکام کی تعلیم :

ہر خطیب کو چاہیے کہ وہ اپنی مجالس میں فقہی احکام بھی بیان کرے اور سامعین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ فقہی احکام پر عمل کریں خصوصا مجالس عزاداری میں عزاداری کے احکام پر عمل ہونا چاہیے۔

 د: اعترضات کا جواب دینا:

معاشرے میں ، لوگوں کے ذہن میں بعض اوقات کچھ سوالات پیش آتے ہیں یا مخالفین کی طرف سے کچھ اعتراضات کیے جاتے ہیں، لہذا خطیب کو چاہیے کہ ان کا منطقی ، عقلی و نقلی دلائل سے جواب دے ۔ البتہ سامعین کو بھی چاہیے کہ ان کے ذہنوں میں موجود شبہات اور اعتراضات علماء کے حضور پیش کریں تا کہ ان کے اذہان باطل چیزوں سے پاک و خالی ہو جائیں۔

عزاداری میں شرعی مسائل کا خیال رکھنا :

امام حسین کی سیرت سے درس لیتے ہوئے ہمیں بھی عزاداری میں شرعی مسائل کا خیال رکھنا چاہیے۔ خصوصاً خواتین کو پردے کا خیال رکھنا چاہیے اور تمام عزاداروں کو عزاداری کی مجالس میں جھوٹ ، تہمت ، بد اخلاقی اور دیگر غیر اخلاقی کاموں سے دوری اور اجتناب کرنا چاہیے۔

ایک دوسرے کو تعزیت پیش کرنا :

کسی انسان کو پیش آنے والی مصیبت کے وقت تعزیت پیش کرنا اسلام میں مستحب ہے۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ:

ہر شخص مصیبت میں مبتلاء انسان کو تعزیت پیش کرے تو اس کا اجر و ثواب اس مصیبت میں مبتلاء انسان کے برابر ہو گا۔

سفینةالبحار، ج2، ص188

یہ سنت شیعیان اہلبیت میں رائج ہے، جیسے ماہ محرم اور عزاداری کے دنوں میں عظم اللہ اجورکم کہہ کر ایک دوسرے کو تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا ہے کہ : جب شیعہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ابا عبد اللہ الحسین کی مصیبت میں یوں تسلیت عرض کریں: 

اعظم اللہ اجورنا بمصابنا الحسین و جعلنا و ایاکم من الطالبین بثارہ مع ولیہ الامام المہدی من آل محمد علیہم السلام،

یعنی خداوند متعال امام حسین کی سوگواری اور عزاداری کی برکت سے ہمارے اجر میں اضافہ فرمائے اور ہم اور آپ کو امام مہدی (عج) کے ہمراہ امام حسین کے خون کا بدلہ لینے والوں میں سے قرار دے۔

مستدرک الوسایل،ج2،ص216

عزاداری پیغام زینب (س) :

ہم جانتے ہیں کہ حضرت زینب (س) پہلی عزادار ہیں جنہوں نے کربلاء میں ہی امام حسین کے جسم مبارک کے قریب آ کر فرمایا : اے میرے جد امجد رسول اللہ آسمان کے ملائکہ آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں, جبکہ آپ کا بیٹا حسین خون میں لت پت ، ریت اور مٹی پر پڑا ہوا ہے جبکہ ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے ہیں ، یا اللہ ہماری یہ قربانی اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔
عوالم العلوم والمعارف ، ج 11 ، ص 125

حضرت زینب (س) نے اس طرح عزاداری کی تہذیب کی بنیاد ڈالی اور حضرت زینب (س) نے بنی امیہ کی ایک عظیم سازش کو یہیں ناکام بنا دیا جو عاشورا کا پیغام کہیں بھی نہیں پہنچنے دینا چاہتے تھے۔ سیدہ نے یہ سلسلہ شام تک اسیری کی حالت میں بھی جاری رکھا اور عزاداری کو پیغام حق کا بہترین اور مؤثر ترین ذریعہ ثابت کر کے دکھایا۔ چنانچہ ہمیں بھی عاشورا کے دن اور عزاداری کے دوسرے ایام میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہر عزادار کے کندھے پر نئی ذمہ داریاں عائد کرتی ہے، کیونکہ عزاداری احیائے دین کا نام ہے، جس طرح انقلاب عاشورا اور تحریک حسینی اور واقعہ کربلاء دین اسلام کے احیاء کے نام ہیں۔

لذتیں ترک کرنا:

ضروری ہے کہ زندگی کی لذتیں جو کھانے، پینے، نیز سونے اور بولنے سے حاصل ہوتی ہیں، محرم کے ایام میں ترک کی جائیں۔ (مگر یہ کہ ان کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہو)، نیز دینی برادران سے ملاقات تک ترک کی جائے اور اس روز کو گریہ و بکاء اور غم و اندوہ کا روز قرار دیا جائے اور عزاداران اس شخص کی طرح ہوں کہ جسکا والد یا بھائی دنیا سے چلا گیا ہو۔

امام صادق (ع) نے فرمایا: اس روز (عاشورا کو) لذت بخش امور سے اجتناب کیا جائے اور سوگواری کے آداب و مراسم بجا لائے جائیں اور سورج کے زوال تک کھانے پینے سے پرہیز کیا جائے اور پھر اسی غذا میں سے کھایا جائے جو سوگوار افراد کھایا کرتے ہیں۔

(میزان الحکمه ، ج8 ، ص3783)

ایک عالم دین نے فرمایا ہے کہ: سات محرم الحرام سے امام حسین (ع) پر پانی بند کیا گیا تھا، لہذا روز عاشورا تک آپ کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پانی پینے سے پرہیز کریں بے شک دوسری حلال مشروبات سے استفادہ کریں لیکن آقا و سید و سرور اور آپ (ع) کے خاندان و اصحاب احترام میں پانی پینے سے اجتناب کریں۔

روز عاشورا تسلیت و تعزیت کا دن:

روز عاشورا زیارت تسلیت پڑھ لینی چاہیے اور روز عاشورا توسل کر کے اصلاح احوال، عزاداری و عبادات کی قبولیت اور اپنی کوتاہیوں اور کم عملیوں یا گناہوں بحق امام حسین کا واسطہ دے کر اپنی اور تمام مؤمنین کے لیے مغفرت طلب کرنی چاہیے۔

ترجمه المراقبات ، ص53 – 47

محرم کی عزاداری سے مراد وہ مراسم ہیں جنہیں شیعہ اور چہ بسا غیر شیعہ حضرات محرم الحرام میں شہدائے کربلا کی یاد میں منعقد کرتے ہیں۔ عزاداری کی ان محافل میں عموما مرثیوں، نوحوں اور کربلا کے واقعے میں پیش آنے والے واقعات اور مصائب کو ذکر کرنے کے ذریعے امام حسین (ع) پر گریہ و زاری کی جاتی ہے۔ محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کو ان مراسم میں شدت آتی ہے اور دنیا کے شیعہ اکثریتی ممالک یا مناطق میں ان دو ایام میں سرکاری طور پر تمام ادارے اور دکانیں بند ہوتی ہیں اور لوگ گلیوں اور سڑکوں پر نکل کر جلوس اور ماتمی دستے برآمد کرتے ہیں، جس میں علم حضرت عباس، حضرت امام حسین (ع) کا تابوت، حضرت علی اصغر کے جھولے اور حضرت عباس کے مشکیزے وغیرہ کی شبیہ بنا کر ماتم کرتے ہیں۔ ماتمی دستوں کو سیراب کرنے کیلئے پانی کی سبیل اور نذر و نیاز کے مختلف سفرہ جات بھی ان مراسم کا حصہ ہے جن میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

بنی ہاشم کی عزاداری:

منقول ہے کہ واقعہ عاشورا کے بعد امام حسین (ع) پر گریہ و زاری کرنے والوں میں سب سے پہلے آپ (ع) کے فرزند امام زین العابدین (ع)، آپ (ع) کی بہن زینب بنت علی (س) اور ام کلثوم تھیں۔ مقاتل کی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ:

حضرت زینب (س) جب اسیری کے وقت اپنے بھائی کی لاش کے قریب سے گزری تو بھائی کی لاش پر ایسے الفاظ و انداز سے نوحہ کیا کہ جس نے دوست اور دشمن سب کو رلا کر رکھ دیا:

اے میرے نانا محمد (ص) ! تجھ پر آسمان کے فرشتے سلام بھیجتے ہیں یہ صحرا کی گرم ریت پر پڑا ہوا لاشہ تیرے حسین (ع) کا ہے۔ اے نانا تیری بیٹیاں اسیر ہو کر شام جا رہی ہیں اور ان کے چہروں پر مصیبت کا گرد و غبار آن پڑا ہے۔

ان کے علاوہ آپ (ع) کی بیٹیاں اور زوجہ مکرمہ رباب بنت امرؤ القیس وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے کربلا میں شہداء کے لاشوں پر اور بعد ازاں کوفہ اور پھر شام میں عزاداری اور مرثیہ سرائی کا اہتمام کیا۔

سیدبن طاؤس، الملہوف، ص180

ابن نماحلی، مثیر الاحزان، ص77

مقتل الحسین للخوارزمی، ج2، ص39

شیخ مفید، الامالی، ص321

مطالب السؤول، ص76

سیدبن طاؤس، الملہوف، ص198

سیدبن طاؤس، الملہوف، ص213

و ابن نماحلی، مثیر الاحزان، ص100

طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص122

طبری،تاریخ، ج5، ص462

عزاداری آل بویہ کے دور میں:

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری آپ (ع) کی شہادت کے زمانے سے جاری تھی، لیکن آل بویہ کے زمانے (سن 352 ہجری قمری) تک اور چوتھی صدی ہجری سے قبل، یہ عزاداری خفیہ ہوتی تھی۔

عام اسلامی مؤرخین خاص طور پر ابن الجوزی نے کتاب المنتظم میں، ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ میں، ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں، یافعی نے مرآۃ الجنان میں اور ذہبی سمیت واقعات کو برسوں کی ترتیب سے لکھنے والے دیگر مؤرخین نے اپنی کتابوں میں سن 352 ہجری قمری اور بعد کے برسوں کے واقعات کے ضمن میں شیعیان اہل بیت (ع) کی عزاداری کی کیفیت بیان کی ہے۔

بغداد میں شیعہ سلسلۂ سلطنت (سن 321 تا 447 ہجری قمری/ 932 تا 1055 عیسوی) کے بادشاہ معز الدولہ دیلمی کی سلطنت میں عاشورا کے مراسمات کی دقیق رعایت کی جاتی تھی۔

جواد محدثی، فرہنگ عاشورا، ص339، بحوالہ حسن مشحون، موسیقی مذہبی ایران، ص4۔

بازار بند ہو جایا کرتے تھے اور لوگ شہر میں گھومتے تھے جو گریہ کر رہے ہوتے تھے، آہ و نالہ کرتے تھے اور اپنا سر پیٹتے تھے جب کہ وہ سیاہ لباس زیب تن کیے ہوتے تھے۔ خواتین کی حالت بھی بے ترتیب اور غیر منظم ہوتی تھی۔

ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، قاہرہ 1977، ج2، ص243۔

یہ جلوس آج کے دور میں نہیں بلکہ بھت پرانے زمانے سے چلتے آ رہے ہیں

 عزاداری صفویہ کے دور میں:

صفوی خاندان نے اقتدار سنبھالا تو تشیع کی ترویج کے باعث عزاداری زیادہ عام اور اعلانیہ ہوئی۔ چنانچہ شیعہ اسلام دسویں صدی ہجری / سولہویں صدی عیسوی میں قومی اور سرکاری مذہب میں تبدیل ہوا جس کے بعد شیعہ عقائد کو پورے ملک میں فروغ ملا اور یوں ایران میں عزاداری زيادہ آشکار انداز سے رائج ہوئی۔

عاشورا کے بہت سے مراسم ابھی تک بھی شیعہ حلقوں میں ترقی و ترویج پا رہے ہیں، اگرچہ یہ مراسم ظاہری طور پر مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن ان میں شرکت اور پرجوش موجودگی عالمی حیثیت رکھتی ہے۔

🔵 نــــوٹ 🔵
شیعہ کے پاس جو کچھ بھی ہے فکر سے لے کر حماسوں، شہادتوں اور کارناموں تک، سب امام حسین (ع) اور کربلا سے ہے۔ ہم نے عاشورا سے حیات پائی ہے۔ عاشورا ہماری تاریخ کا دھڑکنے والا دل و نبض ہے۔ اگر ہم نے اس اور عقل کے رابطے کا بہتر ادراک کیا ہے اور ان کے درمیان معجزانہ پیوند برقرار کیا ہے، اس لیے کہ ہم عاشورا کے صریح پیغامات کے ساتھ صدیاں جیے ہیں اور حماسہ حسینی میں صدیاں بالیدگی کی مشق کرتے رہے ہیں۔ لوگ اپنی جان سے موت کی پذیرائی کرتے تھے تا کہ ان کی فکر کا روشن راستہ باقی رہے۔

ہماری فکر ہمارے جذبے کی خدمت میں اور ہمارا جذبہ ہماری فکر کی خدمت میں ہے اور یہی ہے عاشورا کا روشن پیغام۔

کہاں جذبے اور عقل کی سازگاری کا اس طرح مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ؟

کہاں فکر کی نہر رواں میں جذبے کا جوش اس طرح دیکھا جا سکتا ہے ؟

🌻ـ🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻
 📚 مكتب: سيرة الأئمة المعصومين عليهم السلام
🍂ـ🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂

اور زیادا مطالعہ کرنے کے لئے نیچے دی ہوئی لنک پر کلک کریں:

Sirateaimamasoomin.blogfa.com

مصنف بندہ حقیر: زاھد حسین محمدی مشھدی
۹۸۹۱۵۰۶۹۳۳۰۶
۹۸۹۳۰۷۸۳۱۲۴۷



تاريخ : جمعه ۱۳۹۹/۰۵/۰۳ | 12:22 PM | نویسنده : زاھد حسین محمدی |