🔸بسمه تعالي🔸
🍀فقھاء اور مجتھدین کی تقلید کا حکم کلام معصوم ع کی نگاہ میں🍀
✍️ : غلام رضا لاشاری
انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے بہت کچھ سیکھتا ہے جو کچھ نہیں جانتا وہ دوسروں سے پوچھتا ہے قدم قدم پر یہ انسان دوسروں کی پیروی کر رھا ھوتا ہے
جیسے شاگرد اپنے استاد کی ھر بات مانتا اور اس کے نقش قدم پر چل کر اپنی جہالت کو علم اور آگاھی میں تبدیل کردیتا اور یہ تب ھوتا جب یہ شاگرد استاد کی من و عن ھر بات کی پیروی کرے اب اگر استاد کچھ بتا رھا ھو شاگرد اس کو چھوڑ کر کچھ اور کرنے لگ جائے تو وہ علم کو حاصل نہیں کر پائے گا کیوں کہ حصول علم کے لیے استاد کی پیروی اس کی تقلید ضروری ھوتی ہے اور استاد کی تقلید کو سب بھتر اور ضروری سمجھتے ہیں، اسی طرح ڈاکٹر کی ھم تقلید کرتے ہیں جس جس چیز سے منع کرتا ہے ھم اس ڈاکٹر کی سجیسشن کی پیروی کرتے ہوئے حلال چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں یہاں بھی ڈاکٹر کے بتائے ھوئے نسخے پر چپ چاپ کر کے عمل کر رہے ہوتے ہیں صبح کو چار گولیاں نہار منہ لینی دوپھر کو تین رات کو فلاں ٹائم پر پانچ ٹیبلٹس لینی یہ بھی ھم سب کرتے یہاں کوئی عقلمند نہیں کہتا کہ ڈاکٹر کی پیروی کیوں کریں یہاں کسی کو سورہ مؤمنون کی آیت یاد نہیں آتی کہ کسی بشر کی کیوں اطاعت کریں! ڈاکٹر بھی تو بشر ہے کیوں اس کے کہنے پر حلال چیزیں کھانا تک چھوڑ دیتے ہو!( جبکہ سورہ مؤمنون میں کسی بشر کو خدا کا درجہ دے کر اس کی اطاعت کرنے کے متعلق بات کی گئی ہے جو کہ غلط ہے شرک ہے نہ کہ کسی متخصص اور ماھر علم کی بات قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے ورنہ تو تمام انبیاء بھی ائمہ ع بھی بشر ہی تھے تو کیا یہ آیہ ان کو بھی شامل ہے ھر گز نہیں کیوں کہ انبیاء اللہ تعالی کا میسج ہی دے رہے تھے اور ائمہ ھدی بھی جبکے مجتھدین بھی ائمہ ھدی کے اقوال کی روشنی میں انہی کی بات ھم تک پہنچا رہے ہوتے ہیں جو کہ ایک واضح بات ہے، )
جواب یہی ہوگا کہ ڈاکٹر Specialistaion رکھتا ہے لھذا جو ماھر ہو جس Field میں اس کی تقلید کرنا عقلا اور شرعا درست ہے تو پھر ایک مجتھد بھی ڈاکٹر کی طرح اپنے شعبے کا ماھر اور متخصص ھوا کرتا ہے اس کی طرف رجوع کرنا بھی عقلا اور شرعا نہ فقط درست ہے بلکے بے حد ضروری بھی ہے کیوں کہ اگر کسی اناڑی عطائی معالج سے دوائی لیں تو صرف جان کو خطرہ ہے اور اگر ایسے نیم ملاں اور نام لیوا ذاکرین سے دین لیں گے تو ایمان کے تباھ ھوجانے کا خطرہ ہوگا،
معلوم ہوا تقلید تو ھر انسان کرتا ہے شاگرد اپنے استاد کی ایک مریض اپنے ڈاکٹر کی تو پھر جب مسائل دینی کو نہ جاننے والا شخص کسی دینی امور میں اسپیشلائیزیشن یا تخصص رکھنے والے مجتھد کی طرف رجوع کرتا ہے تو یہاں شور کیوں مچایا جاتا؟
زمان غیبت ہو یا وہ زمانہ جہاں لوگ امام معصوم ع تک رسائی نہ رکھتے ہوں تو اس صورتحال میں عام لوگوں کا وظیفہ اور ذمیواری کیا ہے جب ان کو کوئی دینی مسائل میں سے کوئی مسئلہ درپیش ہو اور وہ اس مسئلہ شرعی کا حکم نہ جانتے ہوں تو کس کی طرف رجوع کریں کس کی تقلید کریں،
اگرچہ عقلا یہ بات واضح ہے کہ دینی مسائل میں زمان غیبت امام زمان علیہ السلام میں انہی فقھاء کی طرف رجوع کیا جائے گا جو اپنے زمانے کے سب سے زیادہ اعلم ہوں گے،
اور جو اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ حوزہ ھای علمیہ میں علوم محمد و آل محمد ص کے کسب کرنے میں صرف کر چکے ہوں گے اور تمام علوم پر جیسے علم صرف و نحو، علم لغت ،علم حدیث علم درایت، علم رجال، علم تفسیر قرآن، علم اصول الفقہ ،علم فقہ ،علم علوم قرآنی، علم منطق، وغیر ذالک
ان تمام علوم پر
ملکہ اور کامل تسلط رکھتا ہو اور اس کے بعد ایک عالم فقیہ یا مجتھد بنتا ہے اور اس کو یہ علم پڑھتے کوئی تیس چالیس سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے جس کے بعد وہ فتوا دینے کا مجاز ھوتا ہے،
لیکن عام لوگ جو ایک دو عام تاریخ کی یا حدیث کی یا قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ لیں تو خود کو مفتی سمجھ لیتے ہیں اور دوسروں کو دین سکھانے شروع ہوجاتے ہیں یا کچھ ایسے نام لیوا ذاکرین جو کسی دوسرے خطیب کی چار پانچ مجلسیں رٹ کر منبر پر آکر عام سادہ لوح لوگوں کو دین اور شریعت سکھانے لگ جاتے ہیں
اور ستم بالا ستم یہ کہ عام سطحی ذھنیت رکھنے والے لوگ ان سامری مثل مکاروں سے فریب کھاتے ہیں اور ایسے" نیم حکیم خطر جان نیم ملاں خطر دین" سے تو دین سیکھ رھے ھوتے ہیں اور خود کو گمراہی کے دلدل میں ڈال رھا ہوتے لیکن پچاس سے زائد علوم پر کامل مھارت رکھنے والے فقھاء اور مراجع کے خلاف زبان درازی کر رھے ھوتے ہیں ،
اھل عقل و خرد یہاں خود فیصلہ کریں کہ دین کس سے سیکھنا چاھیے دو کتابیں پڑھ کر اپنے آگے بڑے بڑے القاب لگانے والے
"الامة الدهر " ( زمانے کے لیے وبال اور مصیبت) سے یا چالیس سال مدرسوں میں علوم محمد و آل محمد سیکھنے والے فقیہ سے جو واقعی علامة الدهر کے لقب کا مستحق ہوتا اس سے..؟
جبکے قابل غؤر یہ بات بھی ہے کہ صرف ان علوم پر کامل مھارت رکھنا ہی کافی نہیں ہے بلکے اس کے علاوہ اور بھی شرائط کلام معصوم ع میں بیان کی گئیں ہیں جن کے بعد ان جامع الشرائط مجتھدین کی طرف رجوع کا حکم دیا گیا ہے،
لیکن ھمارے ہاں جو فریب دینے میں اور آیات اور روایات کی من پسند من گھڑت تفسیر سنانے میں ماھر ہو لوگ اس سے دین سیکھتے اور خود بھی اپنی آدھی فلاسفی بھی استعمال کرتے اور یہاں ھر ایک نماز کو درست کرنے، عزاداری کے اصول مرتب کرنے، اور اپنی من پسند سوچ پر ولایتی اور مقصر ہونے کا معیار بنالیتے ،قطع نظر اس کے، کہ قرآن اور سیرہ اھل بیت علیھم السلام میں نماز، عزاداری، اور ولایت ائمہ ھدی کے متعلق کیا بیان کیا گیا ہے، یہ لوگ اپنی پسند کا دین عقائد شریعت خود سے گڑھ لیتے اور اگر کسی نے ایسے لوگوں کی من پسند سوچ کے خلاف بات کی تو چاھے وہ فقیہ یا مجتھد ہو جو قرآن مجید اور سنت ائمہ علیھم السلام کی روشنی میں بات کر رھا ھو تو اس کی نہیں مانے جائے گی وہ ان کے نزدیک مقصر ان پڑھ تشیع کا دشمن سمجھا جائے گا اور جو دو کتابیں پڑھ کر الامة الدهر بنا ھوگا وہ ایسے لوگوں کے ہاں ولایت کا پاسباں وکیل حق اھل بیت وغیر ذالک جیسے القاب سے نوازا جائے گا کیوں کہ یہ لوگوں کی من پسند باتیں بیان کرتے وہ نہیں جو قرآن اور اھل بیت ع نے بیان کیا ہے،
بھرحال چند احادیث ائمہ علیھم السلام بیان کرتا ہوں جن سے یہ سمجھنا آسان ھوگا کہ زمان غیبت امام زمان ع میں ھم کس سے دین سیکھیں اور اس مورد میں ھمارے ائمہ ع نے ھمیں کیا حکم دیا ہے،
1️⃣ ـ حدیث امام حسن عسکری علیہ السلام:
*ﻣﻦ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺍﻟﻔﻘﻬﺎﺀ ﺻﺎﺋﻨﺎً ﻟﻨﻔﺴﻪ، ﺣﺎﻓﻈﺎً ﻟﺪﻳﻨﻪ، ﻣﺨﺎﻟﻔﺎً ﻋﻠﻰ ﻫﻮﺍﻩ، ﻣﻄﻴﻌﺎً ﻷﻣﺮ ﻣﻮﻻﻩ، ﻓﻠﻠﻌﻮﺍﻡ ﺃﻥ ﻳﻘﻠﺪﻭا*،(۱)
جو کوئی فقھاء میں سے
🔸 ۱ـ اپنی نفس کو محرمات سے بچاتا ہو
🔸۲- اپنے دین کا محافظ ہو
🔸۳- اپنی ھوا و حوس کے پیچھے نہ چلتا ہو
🔸۴- اپنے امام وقت کا اطاعت گذار ہو
تو عوام کو چاھیے ایسے فقیه کی تقلید کریں،
اس حدیث میں امام عسکری ع
ھمیں جامع الشرائط فقیہ کی تقلید کا حکم فرما رھے اب کسی بھی مجتھد کی تقلید کرنا گویا اطاعت امام ہے اور دو باتوں کو ذھن نشیں کرنا چاھیے
* ایک یہ کوئی فقیہ اپنی طرف سے نہیں کھ رھا کہ میری تقلید کریں بلکے امام معصوم حکم دے رھے کہ فقھاء کی تقلید کرو
* دوسری بات یہ کہ ھر کسی کی تقلید کا حکم امام معصوم ع نہیں دے رہے بلکے جس میں یہ اوپر بیان کردہ شرائط پائی جاتی ہوں اس کی طرف رجوع کیا جائے اور اس کی تقلید کی جائے نہ کہ ھر کسی کی جس میں اوپر ذکر کردہ شرائط تک نہ ہوں،
2️⃣ـ فرمان امام صادق علیہ السلام:
ﻭﻗﺪ ﺃﺭﺳﻰ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮ ﺍﻟﺼﺎﺩﻕ ﻗﻮﺍﻋﺪ ﺍﻟﺮﺟﻮﻉ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻔﻘﻬﺎﺀ ﻗﺎﺋﻼً:
*ﺍﻧﻈﺮﻭﺍ ﺇﻟﻰ ﻣﻦ ﻛﺎﻥ ﻣﻨﻜﻢ ﻗﺪ ﺭﻭﻯ ﺣﺪﻳﺜﻨﺎ، ﻭﻧﻈﺮ ﻓﻲ ﺣﻼﻟﻨﺎ ﻭﺣﺮﺍﻣﻨﺎ*
*ﻭﻋﺮﻑ ﺃﺣﻜﺎﻣﻨﺎ، ﻓﻠﻴﺮﺿﻮﺍ ﺑﻪ ﺣﻜﻤﺎً ﻓﺈﻧﻲ ﻗﺪ ﺟﻌﻠﺘﻪ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺣﺎﻛﻤﺎً، ﻓﺈﺫﺍ ﺣﻜﻢ ﺑﺤﻜﻤﻨﺎ ﻓﻠﻢ ﻳﻘﺒﻞ ﻣﻨﻪ، ﻓﺈﻧﻤﺎ ﺑﺤﻜﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﺳﺘﺨﻒ، ﻭﻋﻠﻴﻨﺎ ﺭﺩ، ﻭﺍﻟﺮﺍﺩ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﺍﻟﺮﺍﺩ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ، ﻭﻫﻮ ﻋﻠﻰ ﺣﺪ ﺍﻟﺸﺮﻙ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ** .(۲)
امام صادق ع اپنے اس کلام مبارک میں کچھ شرائط اور ضوابط بیان فرما رہے کہ کس کی طرف رجوع کیا جائے،
آپ ع فرماتے ہیں:
🔹ـ تم لوگ دیکھو کہ کون ہے جو ھماری احادیث کو نقل کرتا ہے( یعنی ھماری احادیث سے بیان کر رھا ہو نہ کے اپنی طرف سے گڑھ کر سنا رھا ھو)
🔹ـ اور ھمارے بیان کردہ حلال اور حرام کے پیش نظر بیان کر رھا ہو
🔹ـ احکام دین کو جاننے والا ہو
🔹ـ پس لوگوں کو چاھیے کہ ایسے فقیہ کی باتوں پر راضی رہیں کیوں کہ ھم نے اس فقیہ کو تم لوگوں پر اپنی طرف سے حاکم قرار دیا ہے،
اگر وہ ھماری طرف سے تم تک کوئی حکم بیان کرے اور کوئی اس کی بات کو پھر بھی قبول نہ کرے تو گویا اس نے حکم خدا کو ھلکہ سمجھا اور ھمارے حکم کو رد کیا اور ھمارے فرمان کی مخالفت گویا اللہ تعالی کے حکم کی مخالفت ہے،اور یہ شرک باللہ سبحانه کے مترادف ہے،
امام صادق ع فقیہ کے حکم اور بات کی مخالفت کو اپنی مخالفت کے برابر شمار فرما رہے ہیں اور جس نے فرمان معصوم کو رد کیا اس نے گویا فرمان خدا کو رد کیا اور یہ نافرمانی شرک جیسے گناھ کے مترادف ہے،
تو وہ لوگ جو فقیہ جامع الشرائط کے بیان کردہ باتوں کو نہیں مانتے در اصل وہ حکم معصوم کی نافرمانی کر رھے ھوتے کیوں کہ مجتھد کوئی بات اپنی طرف سے بیان نہیں کرتا بلکے احادیث معصوم ھی کی روشنی میں حکم بیان فرما رھا ھوتا ہے،
اب بھی کوئی فقھاء کی مخالفت کرے اور خود کو اھل بیت ع کا شیعہ کہلوائے تو وہ کھلم کھلا خود کو فریب دے رھا اور معصیت کا شکار ہو رھا،
3️⃣ ـ فقھاء اور علماء حقہ کا زمان غیبت امام زمان ع میں مقام اور منزلت ،امام علی نقی علیہ السلام کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
ﻓﻘﺪ ﻗﺎﻝ امام الھادی ع :
**ﻟﻮﻻ ﻣﻦ ﻳﺒﻘﻰ ﺑﻌﺪ ﻏﻴﺒﺔ
ﻗﺎﺋﻤﻨﺎ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ ﺍﻟﺪﺍﻋﻴﻦ ﺇﻟﻴﻪ، ﻭﺍﻟﺪﺍﻟﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺍﻟﺬﺍﺑﻴﻦ ﻋﻦ ﺩﻳﻨﻪ ﺑﺤﺠﺞ ﺍﻟﻠﻪ، ﻭﺍﻟﻤﻨﻘﺬﻳﻦ ﻟﻀﻌﻔﺎﺀ ﻋﺒﺎﺩ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﺷﺒﺎﻙ ﺇﺑﻠﻴﺲ ﻭﻣﺮﺩﺗﻪ، ﻭﻣﻦ ﻓﺨﺎﺥ ﺍﻟﻨﻮﺍﺻﺐ ﻟﻤﺎ ﺑﻘﻲ ﺃﺣﺪ ﺇﻻ ﺍﺭﺗﺪ ﻋﻦ ﺩﻳﻦ ﺍﻟﻠﻪ ﻭ ﻟﻜﻨﻬﻢ ﺍﻟﺬﻳﻦ
ﻳﻤﺴﻜﻮﻥ ﺃﺯﻣﺔ ﻗﻠﻮﺏ ﺿﻌﻔﺎﺀ ﺍﻟﺸﻴﻌﺔ، ﻛﻤﺎ ﻳﻤﺴﻚ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻟﺴﻔﻴﻨﺔ ﺳﻜﺎﻧﻬﺎ،ﺃﻭﻟﺌﻚ ھم الافضلون عند اللہ عز وجل*(۳)
امام ھادی علیہ السلام علماء حقہ اور مراجع عظام کا بلند مقام اور ان کے بے مثال کاوشوں کو اس طرح بیان فرما رہے ہیں:
" اگر غیبت امام قائـم کے بعد علماء حقہ کا وجود پر برکت نہ ہوتا جو لوگوں کو امام وقت کی طرف دعوت دے رہے ہوتے اور اس کے وجود سے رھنمائی لیتے اور خدا کی حجتوں کے ذریعے دین خدا کا دفاع کرتے ہیں اور جو بندگان خدا جن کا ایمان کمزور ہوتا ان کو شیطان اور اس کے چیلوں ( غالی، نصیری، ناصبی، منافقین ) سے رھائی دلانے والے ہوتے اور ناصبیوں سے نجات دلانے والے ہوتے ہی،
*اگر یہ علماء حقہ نہ ہوتے تو کوئی بھی( غیبت کے زمانے میں) دین خدا پر ثابت قدم نہ رھتا اور سب مـرتد ہوجاتے، **
لیکن یہ علماء حقہ ہی ضعیف الایمان شیعوں کے دلوں کی رھبری اپنی علمی قدرت سے اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور ان کے ایمان ( عقائد) کی محافظت کرنے والے ہوتے ہیں،
*مثل اس کشتی کے ناخدا کے جو کشتی کی باگ دؤڑ کو اپنے ھاتھوں میں لے لیتا ہے یہ علماء حقہ ( مجتھدین) اللہ تعالی کے نزدیک افضل اور مقام والا رکھتے ہیں*
امام علی نقی الھادی علیہ السلام اپنے اس نورانی فرمان مبارک میں چند چیزوں کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں،
🔸ـ زمان غیبت میں علماء حقہ کا وجود ایک پربرکت وجود ہے جو لوگوں کو اپنے امام کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے امام وقت ع سے رھنمائی لیتے ہیں،
🔸ـ کمزور عقیدہ والے مومنین کو اللہ تعالی کی حجتوں کے ذریعے شیطانی چیلوں سے نجات بخشنے والے ہوتے ہیں یہ شیطانی گروہ کبھی غالیوں کے روپ میں کبھی نصیریوں کی شکل میں تو کبھی ناصبیوں کی مانند مومنین کے عقائد کو متزلل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ھر آئے روز ایک نیا فتنہ ایک نیا اشو گڑھتے اور مومنین کو مثل عمرو عاص ان کے مقدسات کو وسیلہ بنا کر گمراہ کرنے کی ناپاک کوشش کرتے لیکن یہ علماء حقہ جو مجاھد فی سبیل اللہ ہیں اور سربازان امام زمان ع ہیں ایسے ابلیسی چیلوں کی تمام تر سحر کی رسیوں کو اپنے علم اور تقوی کے ذریعے ملیا میٹ کردیتے ہیں اور شیعوں کے عقائد کو منحرف ہونے سے بچاتے ہیں
🔸ـ اگر علماء حقہ کا وجود مبارک نہ ہوتا تو سب مرتد ہوجاتے کیوں انسان کی یہ فطرت ہے کہ زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ جس علائقے میں جس مذھب اور عقیدے کے لوگوں کے ساتھ زندگی گذار رھا ہوتا آھستہ آھستہ انہی لوگوں کا رنگ اپناتا اور انہی کے دین کی پیروی کرنے لگتا، یا یہ کہ سامری نما کچھ گمراہ کن تبلیغی لوگ اسے شبھات اور وسوسوں میں ڈال کر اس کے اپنے عقیدے سے پھیر لیتے ہیں جیسے آجکل مسیحی یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے نؤجوانوں کو اپنے عقیدے سے منحرف کرنے میں ھر تبلیغی ھتھ کنڈہ استعمال کر رہے اسی طرح وھابی یا غالی نصیری جو آئے روز سادہ فھم لوگوں کو عقائد باطلہ کی طرف کھینچ رہے ہوتے ہیں،
تو اس وحشتناک صورتحال میں اگر علماء حقہ کا وجود مبارک نہ ہوتا تو آج اکثریت اپنے ایمان سے ھاتھ دھو بیٹھتی،
🔸ـ علماء حقہ اللہ تعالی کے نزدیک مقام والا رکھتے ہیں اور جس طرح انبیاء الاھی اپنی بے حد زحمات کے طفیل اللہ تعالی کے نزدیک مقربین میں سے ہیں اسی طرح علماء حقہ بھی جو کہ انہی انبیاء کے وارث ہیں اور وھی لوگوں کی ھدایت اور رھنمائی کا کام انجام دیتے ہیں ان کا مقام بھی اللہ تعالی کے نزدیک بہت بلند و والا ہے،
✅ *نتیـــــجه*
مندرجہ بالا روایات معصون علیھـم السلام کو اگر خلاصتا ذکر کیا جائے تو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے
⬅️ـ مراجع جامع الشرائط کی تقلید عام مومنین پر حکم امام کی طرف سے لازم اور ضروری ہے جیسا کہ امام عسکری علیہ السلام نے یہ امر بیان فرمایا ہے کہ
*فللعوام ان یقلدوا*
کہ عوام الناس کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کریں،
⬅️ـ جو لوگ علماء اور مجتھدین کی تقلید اور ان سے روگردانی کرتے ہیں در اصل وہ حکم امام کی نافرمانی کرتے ہیں، اور یہ شرک کے مرتکب قرار پاتے ہیں، جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
*فاذا حکم بحکمنا فلم یقبل منه فانما بحكم الله استخف وعلينا رد والراد علينا الراد علي الله وهو علي حد الشرك بالله عز وجل*
کہ جب ایک فقیہ مجتھد اور نائب امام حکم معصوم کے تحت ( قرآن اور سنت) سے کوئی بات کہتا ہے اور اس کی وہ بات قبول نہیں کی جاتی تو گویا کہ در حقیقت حکم خدا کو ھلکہ شمار کیا گیا اور یہ ھم ائمہ ھدی ع کا انکار کیا گیا اور ھمارے حکم کی نافرمانی گویا خدا کی نافرمانی ہے اور شرک باللہ کے مترادف ہے،
⬅️ـ اگر زمان غیبت امام زمان علیہ السلام میں علماء حقہ نہ ہوتے تو سب مرتد ھوچکے ہوتے،
جیسا کہ امام ھادی علیہ السلام فرماتے ہیں:
*لولا من یبقی بعد غیبة قائمنا من العلماء..... ما بقی احد الا ارتد عن دین الله*
کہ اگر علماء حقہ زمان غیبت میں نہ ہوتے تو سب مرتد ھوچکے ہوتے،
اب یہ علماء حقہ کا وجود مبارک ہے جو امام زمان ع کی غیبی نصرت سے مومنین کو حقیقی دین محمدی کی طرف رھنمائی کرتے آ رھے ہیں اور حاکمان وقت کے تمام تر ظلم اور ستم کو برداشت کرتے رہے ہیں لیکن کبھی مذھب تشیع کی تبلیغ اور ترویج کو ایک دن کے لیے بھی معطل نہیں کیا
اگر ھم تاریخ علماء شیعہ پڑھ کر دیکھیں تو جان لیں گے کہ علماء پر کس قدر بنو عباس اور اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے ستم ڈھائے تھے شھید اول محمد بن مکی کے جسد اطھر کو شھادت کے بعد آگ میں جلا دیا گیا جرم ان کا یہ تھا کہ انہوں نے مذھب تشیع کی تبلیغ اور اھل بیت رسول اللہ ص کے مکتب کی ترقی اور ترویج سے باز کیوں نہیں آئے،
شھید ثانی زین الدین کو اس انداز میں شھید کیا گیا کہ ان کی ایک ٹانگ کو ایک اونٹ کے ساتھ اور دوسری ٹانگ کو دوسرے اونٹ کے ساتھ باندھ کر ایک اونٹ کو مشرق کی طرف تو دوسرے اونٹ کو مغرب کی طرف دؤڑایا گیا اور اس طرح اس شھید بزرگوار کے جسم کے دو حصے کیے گئے،یہ مذھب اھل بیت ع ھمیں مفت میں نہیں ملا اس مذھب کو زندھ رکھنے اس کو بدعتوں سے بچانے میں علماء شیعہ نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں،
اگر آج ھم ۱۴ سو سال گذر جانے کے بعد بھی حقیقی اسلام کے پیروکار ہیں ولایت علی ع اور ۱۲ اماموں کے پیروکار ہیں تو اس ولایت امیر المومنین کا درس انہی مراجع اور علماء حقہ نے ھمیں دیا ہے آج جو کچھ ھمارے پاس ہے یہ انہی علماء اور مراجع کی زحمات اور ان کی قربانیوں کے طفیل ہے،
علماء اور مراجع شیعہ پر صرف وھی زبان درازی کرسکتا جو یا دشمن اھل بیت ع ہوگا یا ان کا چیلا ہوگا،ورنہ حقیقی شیعہ ھر گز اپنے مراجع عظام کی طرف غلط بات یا غلط الفاظ نہیں بولے گا کیوں کہ یہ مراجع عظام اور علماء حقہ ھمارے محسن ہیں اور محسن کا شکر گذار ھوا جاتا ہے نہ کے زبان درازی کی جاتی ہے،
.
📚(۱) ﺍﻟﻮﺳﺎﺋﻞ، ﺍﻟﺤﺮ ﺍﻟﻌﺎﻣﻠﻲ، ﺝ 27، ﺹ 131، ﺭﻗﻢ .33401
(۲) ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻷﺣﻜﺎﻡ ، ﺍﻟﺸﻴﺦ ﺍﻟﻄﻮﺳﻲ، ﺝ6، ﺹ 178، ﺭﻗﻢ .514
(۳) ﺑﺤﺎﺭ ﺍﻷﻧﻮﺍﺭ، ﺍﻟﻌﻼﻣﺔ ﺍﻟﻤﺠﻠﺴﻲ، ﺝ2، ﺹ 6 ، ﺭﻗﻢ .12
.: Weblog Themes By Pichak :.