عورت اور مرد کی غیرت

عورت اور مرد کی غیرت

 📜 غَیْرَةُ الْمَرْأَةِ کُفْرٌ وَ غَیْرَةُ الرَّجُلِ إِیمَانٌ .
🍀تـــــرجــمہ:🍀
✍🏻 عورت کا غیرت کر نا کفر ہے ،اور مرد کا غیور ہونا ایمان ہے۔
🍀تشریح🍀
مطلب یہ ہے کہ جب مر دکو چار عورتیں تک شادی کرنے کی اجازت ہے تو عورت کا سوت گوارا نہ کر نا حلال خدا سے ناگواری کا اظہار اور ایک طرح سے حلال کو حرام سمجھنا ہے اور یہ کفر کے ہم پایہ ہے ،اور چونکہ عورت کے لیے متعدد شوہر کرنا جائز نہیں ہے ،اس لیے مرد کا اشتراک گوارا نہ کرنا اس کی غیرت کا تقاضا اور حرام خدا کو حرام سمجھنا ہے اور یہ ایمان کے مترادف ہے۔

مرد و عورت میں یہ تفریق اس لیے ہے تاکہ تولید و بقائے نسل انسانی میں کوئی روک پیدا نہ ہو ،کیونکہ یہ مقصد اسی صورت میں بدرجہ اتم حاصل ہوسکتا ہے جب مرد کے لیے تعدد ازواج کی اجازت ہو ،کیونکہ ایک مرد سے ایک ہی زمانہ میں متعدد اولادیں ہوسکتی ہیں اور عورت اس سے معذورو قاصر ہے کہ وہ متعدد مردوں کے عقد میں آنے سے متعدد اولادیں پیدا کرسکے۔کیونکہ زمانہ حمل میں دوبارہ حمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ اس پر ایسے حالات بھی طاری ہوتے رہتے ہیں کہ مرد کو اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ حیض اور رضاعت کا زمانہ ایساہوتاہی ہے جس سے تولید کا سلسلہ رک جاتا ہے اور اگر متعدد ازواج ہونگی تو سلسلہ تولید جاری رہ سکتا ہے کیونکہ متعدد بیویوں میں سے کوئی نہ کوئی بیوی ان عوارض سے خالی ہو گی جس سے نسل انسانی کی ترقی کا مقصد حاصل ہوتا رہے گا۔ کیونکہ

مرد کے لیے ایسے مواقع پیدا نہیں ہوتے کہ جو سلسلہ تولید میں روک بن سکیں۔اس لیے خدا وند عالم نے مردوں کے لیے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ہے ،اور عورتوں کے لیے یہ صورت رکھی کہ وہ بوقت واحد متعدد مردوں کے عقد میں آئیں۔کیونکہ ایک عورت کا کئی شوہر کرنا غیرت و شرافت کے بھی منافی ہے اور اس کے علاوہ ایسی صورت میں نسب کی بھی تمیز نہ ہوسکے گی کہ کون کس کی صلب سے ہے چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ مرد ایک وقت میں چار بیویاں تک کر سکتا ہے اور عورت ایک وقت میں ایک مرد سے زیادہ شوہر نہیں کرسکتی۔

حضرت نے فرمایا کہ مرد جب متعدد عورتوں سے نکاح کر ے گا تو اولاد بہرصورت اسی کی طرف منسوب ہو گی اور اگر عورت کے دو یا دو سے زیادہ شوہر ہوں گے تو یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ کون کس کی اولاد اور کس شوہر سے ہے لہٰذا ایسی صورت میں نسب مشتبہ ہو کر رہ جائے گا اور صحیح باپ کی تعیین نہ ہوسکے گی۔اور یہ امر اس مولود کے مفاد کے بھی خلاف ہو گا۔کیونکہ کوئی بھی بحیثیت باپ کے اس کی تربیت کی طرف متوجہ نہ ہو گا جس سے وہ اخلاق و آداب سے بے بہرہ اور تعلیم و تربیت سے محروم ہو کر رہ جائے گا۔

📗 نہج البلاغہ حکمت 124



تاريخ : یکشنبه ۱۳۹۹/۰۴/۲۲ | 5:50 PM | نویسنده : زاھد حسین محمدی |