🌴 حضرت امام رضا علیہ السلام کی مختصر سوانح حیات
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🌹 منصب: شیعوں کے آٹھویں امام
🌹 نام مبارک: علی بن موسی
🌹 کنیت: ابو الحسن (ثانی)
🍂 القاب: مشہور لقب رضا، صابر، زکی، ولی، وفی، سراج الله، نورالهدی، قرة عین المؤمنین، مکیدة الملحدین، کفو، الملک، کافی الخلق ہیں۔
🍃 تاریخ ولادت: 11 ذو القعدة الحرام، سنہ 148 ہجری۔
🌴 جائے ولادت: مدینہ
🌹 مدت امامت: 20 سال (183 تا 203ھ)
🌸 شہادت: 30 صفر 203 ہجری۔
🍀 سبب شہادت: زہر سے مسموم
🌷 مدفن: مشہد مقدس
🌼 رہائش: مدینہ، مرو
🌹 والد ماجد: امام موسی کاظم
🍀 والدہ ماجدہ: تکتم
🌼 ازواج: سبیکہ.
🌸 اولاد: امام محمد تقی علیہ السلام، محمد قانع، حسن، جعفر، ابراہیم، حسین، عائشہ.
🌹 عمر: 55 سال.
🌴 خلاصہ:
حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) شیعوں کے آٹھویں امام ہیں جو اللہ تعالی کی جانب سے منصب امامت پر فائز ہوئے۔ آپ نے ۲۰ سال امامت کی، جس میں سے پانچ سال مامون کے زمانہ حکومت میں گزرے، آپ کو مامون نے قتل کی دھمکی دیتے ہوئے مجبور کیا کہ آپ ولیعہدی کو قبول کریں، تو مجبوراً آپ نے اس منصب کو قبول کرلیا مگر کچھ شرطوں کے ساتھ جنہیں اگلے مقالات میں بیان کیا جائے گاـ
🍃 امامت:
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد امام رضا (علیہ السلام) ۳۵ سال کی عمر میں مقام امامت پر فائز ہوئے۔ امامت کا مسئلہ اگرچہ آپ کے والد گرامی کی حیات کے آخری حصہ میں بہت پیچیدہ ہوگیا، لیکن امام موسی کاظم (علیہ السلام) کے اکثر اصحاب نے آنحضرت کی طرف سے حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کی خلافت کو قبول کرلیا۔
والد گرامی کے بعد آپ کی امامت تقریباً۲۰ سال تھی جو ہارون الرشید (۱۰ سال)، محمد امین (تقریباً ۵ سال) اور مامون (تقریباً ۵ سال) کے زمانے میں تھی۔ دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں سے سترہ سال مدینہ میں اور تین سال خراسان میں تھے۔
🍂 ہجرت:
حضرت امام رضا (علیہ السلام) کی مدینہ سے مرو کی طرف ہجرت ۲۰۰ یا ۲۰۱ ہجری میں واقع ہے۔ مامون الرشید نے امام (علیہ السلام) کے لئے خاص راستہ مقرر کیا تا کہ آپ شیعہ نشیں علاقوں سے نہ گزریں۔ کیونکہ وہ شیعوں کا امام (علیہ السلام) کے اردگرد جمع ہونے سے ڈرتا تھا، اس نے خاص طور پر حکم دیا کہ آنحضرت کو کوفہ کے راستہ سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان، فارس اور نیشابور سے لایا جائے۔
🌴 حدیث سلسلۃ الذہب کو بیان کرنا:
حدیث سلسلۃ الذہب ایسا اہم ترین اور مستندترین واقعہ ہے جو سفر کے دوران نیشابور میں پیش آیا کہ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے وہاں پر وہ حدیث ارشاد فرمائی جو سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہے۔
اسحاق ابن راہویہ کا کہنا ہے: جب حضرت امام رضا (علیہ السلام) خراسان کی طرف سفر کرتے ہوئے نیشابور پہنچے، اس کے بعد کہ جب آپ نے مامون کی طرف کوچ کرنا چاہا، محدثین جمع ہوگئے اور انہوں نے عرض کیا: اے فرزند پیغمبر! ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں اور ہمارے لیے کوئی حدیث بیان نہیں فرماتے؟
🌹اس درخواست کے بعد حضرت نے اپنا سر مبارک کجاوہ سے باہر نکالا اور فرمایا:
"میں نے سنا اپنے والد موسی ابن جفعر (ع) سے
کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد جعفر ابن محمد (ع) سے سنا
کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد محمد ابن علی (ع) سے سنا کہ
انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد علی ابن الحسین(ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد حسین ابن علی (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ میں نے جبرئیل سے سنا کہ انھوں نے کہا کہ میں نے پروردگار عزوجل سے سنا کہ اس نے فرمایا: " لا إلهَ إلّا اللَّه حِصْنى، فَمَن دَخَلَ حِصْنى أمِنَ مِن عَذابى {کلمہ} لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ" میرا قلعہ ہے، پس جو میرے قلعہ میں داخل ہوجائے، میرے عذاب سے بچ جائے گا"، پس جب حضرت کی سواری چل پڑی تو آپ نے بلند آواز سے فرمایا: "بِشُرُوطِهِا و أنا مِن شُرُوطِها" اس کی شرطوں کے ساتھ اور میں ان شرطوں میں سے ہوں۔
🌴 ولی عہدی:
جب مامون نے دیکھا کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) ہرگز خلافت کو قبول نہیں کررہے تو کہا: آپ جو خلافت کو قبول نہیں کررہے تو میرے ولی عہد اور جانشین بنیں تا کہ میرے بعد خلافت آپ تک پہنچے۔ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے جبکہ مامون کی نیت کو جانتے تھے، فرمایا: خدا کی قسم، میرے والد نے اپنے آباء سے اور انہوں نے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خبر دی ہے کہ مجھے انتہائی مظلومیت سے زہر دی جائے گی اور تم سے پہلے انتقال کروں گا، آسمان و زمین کے ملائکہ مجھ پر گریہ کریں گے، اور ایک غریب سرزمین میں ہارون کے پاس دفن کیا جاوں گا۔ مامون نے کہا: اے فرزند رسول اللہ! جب تک میں زندہ ہوں کس کی جرات ہے کہ آپ کی توہین کرے اور آپ کو قتل کرے؟ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: اگر میں بتانا چاہوں کہ کون مجھے قتل کرے گا تو بتا سکتا ہوں۔ مامون نے جب تمام راستے بند ہوئے دیکھے تو ایک اور چال چلتے ہوئے کہا: آپ اس بات کے ذریعہ اپنے آپ کو سبکدوش کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ کہیں کہ آپ دنیا کے طالب نہیں ہیں اور دنیا کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے! امام (علیہ السلام) نے فرمایا: خدا کی قسم! جب سے اللہ تعالی نے مجھے خلق کیا، میں ہرگز جھوٹ نہیں بولا اور دنیا اور لوگوں کی خاطر، دنیا سے دوری اختیار نہیں کی۔ اے مامون ! میں جانتا ہوں کہ تمہاری نیت کیا ہے۔ مامون نے کہا: میری نیت کیا ہے؟ امام (علیہ السلام) نے فرمایا: تو چاہتا ہے کہ مجھے اپنا ولی عہد بنائے تا کہ لوگ کہیں کہ یہ علی ابن موسی الرضا دنیا سے دوری اختیار نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ دنیا تک پہنچ نہیں سکے، دیکھو جب مامون نے ولی عہدی کی پیشکش کی تو اس نے کیسے خلافت اور ریاست کی لالچ کی اور اسے قبول کرلیا!۔ جب مامون نے دیکھا کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) اس کی نیت کو جانتے ہیں تو غصہ سے کہنے لگا: آپ ہمیشہ ناگوار باتیں میرے سامنے کرتے ہیں اور اپنے آپ کو میری ہیبت اور جلال سے امان میں سمجھتے ہیں! خدا کی قسم، اگر آپ نے میری ولی عہدی کو قبول کرلیا تو ٹھیک، ورنہ آپ کو مجبور کروں گا اور اگر پھر بھی قبول نہ کیا تو آپ کی گردن اڑا دوں گا۔
امام (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ مامون اپنے ارادہ سے ہرگز دستبردار نہیں ہوگا تو آپ نے ولی عہدی کو قبول کیا لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔
😭 شہادت:
جب مامون نے دیکھا کے اپنے ناپاک مقاصد تک نہیں پہنچ پایا، بلکہ آپ کو ولی عہدی کا منصب دیتے ہوئے اپنے آپ کو مشکل میں ڈال بیٹھا ہے تو اس نے آنحضرت کو ۵۵ سال کی عمر میں زہر سے شہید کردیا۔
حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) کا روضہ مطہر ایران کے شہر مشہد مقدس میں ہے، اس روضہ مقدس کی زیارت کے لئے لاکھوں لوگ دنیابھر سے شرفیاب ہوتے ہیں۔ آپ کی ولایت، مودت اور محبت ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں آپ کے حرم مطہر اور ضریح مبارک کی زیارت کے لئے کشش پیدا کرتی ہے۔
🔵 نتیجہ:
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) نے اپنے والد امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد منصب امامت کو سنبھالا، آپ نے بیس سال امامت کی جس میں سے ۱۷ سال مدینہ میں اور ۳ سال خراسان میں گزارے، خلیفہ وقت مامون نے آپ کو دھمکی دیتے ہوئے ولی عہدی کو قبول کرنے پر مجبور کردیا، لہذا آپ نے ولی عہدی کو مجبوری سے اور چند شرطوں کی بنیاد پر قبول کیا، مامون کا اس ولی عہدی سونپنے سے مقصد اپنے ناپاک عزائم تک پہنچنا تھا اور نیز یہ بھی تھا کہ وہ امام (علیہ السلام) پر کڑی نظر رکھے تاکہ آنحضرت اللہ کے دین کی ایسے طریقے سے تبلیغ نہ کرپائیں جس سے لوگ آپ کے گرویدہ ہوجائیں اور سب لوگ آپ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے غاصب حکومت وقت کی مخالفت کریں، مگر اس کے باوجود بھی مامون اپنے ظالمانہ مقاصد تک نہ پہنچ پایا کیونکہ امام (علیہ السلام) کا لوگوں سے برتاو، اخلاق اور کردار ایسا تھا کہ لوگ ایسے باکردار اور صاحب کمال انسان کو دیکھ کر آپ کی طرف مائل ہوجاتے، آخرکار مامون نے آٹھویں تاجدار امامت و ولایت کو زہر سے شہید کردیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حوالہ جات:
📚 بحارالانوار، ج49، ص10ـ
📚 عیون اخبار الرضا، ج2 ص 24۔
📚 الکافی، ج1، ص492۔
📚 ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ص21-22۔ امالی شیخ صدوق، ص306
📚 بحارالانوار، ج 49، ص 128، ج 3 سے ماخوذ اور نقل بہ مضمون۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🌐 سيرة الأئمة المعصومين عليهم السلام
ــــــــــــ✍️
بنده حقير: زاهد حسين محمدى
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
📞 Call: +989150693306
📞 Call: +989307831247
.: Weblog Themes By Pichak :.