بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی وفات کی مناسبت سے.
مختصر سوانح حیات حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
① نام: حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا.
② والد کا نام: امام موسی کاظم علیہ السلام.
③ والدہ کا نام: نجمہ خاتون (تکتم)
④ بھائی کا نام: امام رضا علیہ السلام.
⑤ تاریخ ولادت: حدودا ماہ ذیقعد کے شروع میں.
⑥ ولادت کا سال: 173 ہجری قمری.
⑦ ولادت کی جگھ: مدینہ منورہ.
⑧ مشہور لقب: معصومہ سلام اللہ علیہا.
⑨ دوسرے القاب: سِتّی، طاهره، حمیده؛ رشیده؛ تقیّه؛ نقیّه، رضیّه؛ مرضیّه؛ صدیقه؛ محدّثه، عابده.
⑨ شہرت: کریمہ اھلبیت علیہم السلام.
11) ھجرت ایران کی طرف:سال 201 ھجری قمری.
12) ھجرت کا سبب: بھائی کے دیدار کی اشتیاق یا مأمون ظالم نے مجبور کیا.
13) ھجرت کا مسیر: مدینہ، جاجر، سمیرا، زرود، ثعلیبہ، زبالہ، واقصہ، معثیہ، کوفہ، نجف، مدائن، بغداد، کاظمین، نھروان، قصر شیرین، قرماسین، مرج القلعہ، ھمدان، ساوہ، قم.
14) محل مسمومیت: ساوہ.
15) قم میں داخل ہونے کی تاریخ: 23 ربیع الاول 201 قمری.
16) قم میں رھنے کی جگھ: بیت النور میدان میر قم میں.
17) مدت اقامت قم میں: 17 دن
18) تاریخ رحلت و شہادت: 10 یا 12 ربیع الثانی 201 قمری.
19) مدت عمر: 28 سال.
20) حرم مطہر: شہر قم المقدس میں.
21) دفن کرنے کا طریقہ: دو نقاب پوش گھوڑوں والے.
22) امام صادق علیه السلام فرماتے ہیں: جو بهی با معرفت حق اس کی زیارت کرے گا اس کے لئے جنت ہے.
23) حضرت امام موسی کاظم ع بیٹی کے علم کی تعریف کی ہے: اس کا باپ اس پر قربان جائے.
24) امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: جس نے بھی میری بہن کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی ہے.
25) امام جواد علیہ السلام فرماتے ہیں: جو بھی میری پپھی کی زیارت قم میں کرے گا اس کا اجر جنت ہے.
26) ولادت کے دن کا نام رکھا گیا: بیٹی کا دن (روز دختر)
27) خصوصیات: امام صادق علیہ السلام نے ولادت سے پہلے خبر دی، اور امام علیہ السلام نقل شدہ زیارت نامہ، ہم کفو شادی کے لئے نہیں تھا، اور قم مقدس کو حرم اھلبیت ع کہا گیا ہے، اور شیعوں کا سب سے بڑا علمی حوزہ سیدہ (س) کی جوار میں ہے، اور سیدہ (س) کے حرم زیادہ تر مراجع علماء اور فلاسفہ دفن ہیں، نجف کے بعد ، اس خاتون عفیفہ کے قدیمہ مزار کے پاس.
28 مختصر زیارتنامه:
السَّلامُ عَلَیْکِ یَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّه
السَّلامُ عَلَیْکِ یَا بِنْتَ فَاطِمَةَ وَ خَدِیجَة
السَّلامُ عَلَیْکِ یَا بِنْتَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِین
السَّلامُ عَلَیْکِ یَا بِنْتَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْن
السَّلامُ عَلَیْکِ یَا بِنْتَ وَلِیِّ اللَّه
السَّلامُ عَلَیْکِ یَا أُخْتَ وَلِیِّ اللَّه
السَّلامُ عَلَیْکِ یَا عَمَّةَ وَلِیِّ اللَّه
السَّلامُ عَلَیْکِ یَا بِنْتَ مُوسَى بْنِ جَعْفَر
یَا فَاطِمَةُ اشْفَعِی لِی فِی الْجَنَّة
✅التماس دعا
مترجم: زاھد حسین محمدی
🌹 امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی کا مختصر جائزہ🌹
🌺 نام مبارک: حسن بن علی بن محمد علیہ السلام
🌺 کنیه: ابومحمد، ابن الرّضا، ابوعبداللّه، ابوالحسن.
🌺 القاب: اَلاَخیر، التّقی، الحسن الخالص، الحسن العسکری، الخالص، الرّفیق، الزّکی، السّراج، السّراج المضیء، الشّافی، صاحب العسکر الآخر، صاحب العسکر، الصّامت، الطّیّب، العالم.
🌺 والد گرامی: امام هادی(علیہ السلام)
🌺 والدہ گرامی: حضرت سیدہ حُدیث یا سلیل سلام اللہ علیہا.
🌺 ھمسر: حضرت سیدہ نرجس سلام اللہ علیہا
🌺 فرزند: حضرت امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف.
🌺 ولادت مبارک: 8 ربیعالثانی، 232ق.
🌺 مکان ولادت: مدینہ منورہ.
🌺 مدت امامت: 6 سال (از 254 تا 260ق)
😭 شهادت: 8 ربیعالاول، ۲۶۰ق.
🌺 مدفن: سامرا، عراق (حرم عسکریین) محل زندگی سامرا
مولا حضرت امام حسن العسکری علیہ السلام:
شیعوں کے گیارہویں حضرت امام حسن عسکریٴ ٢٣٢ ہجری میں شہر مدینہ میں متولد ہوئے۔ چونکہ آپٴ بھی اپنے بابا امام علی النقیٴ کی طرح سامرا کے عسکر نامی محلے میں مقیم تھے اس لئے عسکری کے نام سے مشہور ہوئے۔
آپٴ کی کنیت ’’ابومحمد‘‘ اور معروف لقب ’’نقی‘‘ اور ’’زکی‘‘ ہے۔ آپٴ نے چھ سال امامت کی ذمہ داری سنبھالی اور ٢٨ سال کی عمر میں معتمد عباسی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
امام حسن عسکریؑ کی حکمت عملی:
امام حسن عسکریٴ نے ہر قسم کے دباو اور عباسی حکومت کی جانب سے سخت نگرانی کے باوجود دینِ اسلام کی حفاظت اور اسلام مخالف افکار کا مقابلہ کرنے کے لئے متعدد سیاسی، اجتماعی اور علمی اقدامات انجام دیئے اور اسلام کی نابودی کے لئے عباسی حکومت کے اقدامات کو بے اثر کردیا۔
علمی جدوجہد:
اگرچہ امام حسن عسکریٴ کے دور میں حالات کی ناسازگاری اور عباسی حکومت کی جانب سے کڑی پابندیوں کی وجہ سے آپٴ معاشرے میں اپنے وسیع علم کو فروغ نہیں دے سکے، لیکن ان سب پابندیوں کے باوجود ایسے شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے ہر ایک اپنے طور پر معارف اسلام کی اشاعت اور فروغ میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ شیخ طوسی نے آپٴ کے شاگردوں کی تعداد سو سے زائد نقل کی ہے۔ جن میں احمد بن اسحق قمی، عثمان بن سعید اور علی بن جعفر جیسے لوگ شامل ہیں۔ کبھی مسلمانوں اور شیعوں کے لئے ایسی مشکلات اور مسائل پیش آجاتے تھے کہ انہیں صرف امام حسن عسکریٴ ہی حل کر سکتے تھے۔ ایسے موقع پر امامٴ اپنے علمِ امامت اور حیرت انگیز تدبیر کے ذریعے سخت ترین مشکل کو حل کر دیا کرتے تھے۔
خفیہ سیاسی اقدامات:
امام حسن عسکریٴ تمام تر پابندیوں اور حکومت کی جانب سے کڑی نگرانی کے باوجود بعض خفیہ سیاسی سرگرمیوں کی رہنمائی کیا کرتے تھے جو درباری جاسوسوں سے اس لئے پوشیدہ رہتی تھی کہ آپٴ نے انتہائی ظریف انداز اختیار کیا ہوا تھا۔ مثال کے طور پر، آپٴ کے انتہائی نزدیک ترین صحابی، عثمان بن سعید روغن فروشی کی دکان کی آڑ میں فعالیت میں مصروف تھے۔ امام حسن عسکریٴ کے پیروکار جو اموال یا اشیاء آپٴ تک پہنچانا چاہتے تھے وہ عثمان کو دے دیا کرتے اور وہ یہ چیزیں گھی کے ڈبوں اور تیل کی مشکوں میں چھپا کر امامٴ کی خدمت میں پہنچا دیا کرتے تھے۔ امامٴ کے انہی شجاعانہ اقدامات اور بے وقفہ فعالیت کی وجہ سے آپٴ کی چھ سالہ امامت کی نصف مدت عباسیوں کے وحشتناک قیدخانوں میں سخت ترین اذیتوں میں گذری۔
شیعوں کی مالی امداد:
آپٴ کا ایک اور اہم اقدام شیعوں کی اور خصوصاً نزدیکی اصحاب کی مالی امداد تھا۔ امامٴ کے بعض اصحاب مالی تنگی کا شکوہ کرتے تھے اور آپٴ ان کی پریشانی کو دور کر دیا کرتے تھے۔ آپٴ کے اس عمل کی وجہ سے وہ لوگ مالی پریشانیوں سے گھبرا کر حکومتی اداروں میں جذب ہونے سے بچ جاتے تھے۔
اس سلسلے میں ابوہاشم جعفری کہتے ہیں: میں مالی حوالے سے مشکلات میں گرفتار تھا۔ میں نے سوچا کہ ایک خط کے ذریعے اپنا احوال امام حسن عسکریٴ کو لکھوں، لیکن مجھے شرم آئی اور میں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ جب میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ امامٴ نے میرے لئے ایک سو دینار بھیجے ہوئے ہیں اور ایک خط بھی لکھا ہے کہ جب کبھی تمہیں ضرورت ہو، تو تکلف نہ کرنا۔ ہم سے مانگ لینا، انشاء اللہ اپنا مقصد پالو گے۔
شیعہ بزرگوں کی تقویت اور ان کے سیاسی نظریات کو پختہ کرنا:
امام حسن عسکریٴ کی ایک اہم ترین سیاسی فعالیت یہ تھی کہ آپٴ تشیع کے عظیم اہداف کے حصول کی راہ میں آنے والی تکلیفوں اور سیاسی اقدامات کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے شیعہ بزرگوں کی سیاسی تربیت کرتے اور ان کے نظریات کو پختہ کرتے تھے۔ چونکہ بزرگ شیعہ شخصیات پر حکومت کا سخت دباو ہوتا تھا، اس لئے امامٴ ہر ایک کو اس کی فکر کے لحاظ سے ہمت دلاتے، ان کی رہنمائی کرتے اور ان کا حوصلہ بلند کیا کرتے تھے تاکہ مشکلات کے مقابلے میں ان کی برداشت، صبر اور شعور میں اضافہ ہو اور وہ اپنی اجتماعی و سیاسی ذمہ داریوں اور دینی فرائض کو اچھی طرح انجام دے سکیں۔ اس حوالے سے جو خط امامٴ نے علی بن حسین بن بابویہ قمی کو لکھا ہے، اس میں فرماتے ہیں: ہمارے شیعہ ہمیشہ رنج و غم میں رہیں گے، یہاں تک کہ میرا بیٹا ظہور کرے گا؛ وہی کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول۰ نے بشارت دی ہے کہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔
امام حسن عسکریٴ اور احیائے اسلام:
عباسی حکومت کا دور اور خصوصاً امام حسن عسکریٴ کا زمانہ، بدترین ادوار میں سے ایک دور تھا۔ کیونکہ حکمرانوں کی عیاشی اور ظلم و ستم نیز ان کی غفلت و بے خبری اور دوسری طرف سے دوسرے اسلامی علاقوں میں غربت کے پھیلاو کی وجہ سے بہت سی اعلیٰ اقدار ختم ہو چکی تھیں۔ بنابریں، اگر امام حسن عسکریٴ کی دن رات کی کوششیں نہ ہوتیں تو عباسیوں کی سیاست کی وجہ سے اسلام کا نام بھی ذہنوں سے مٹ جاتا۔ اگرچہ امامٴ براہِ راست عباسی حکمرانوں کی نگرانی میں تھے، لیکن آپٴ نے ہر اسلامی سرزمین پر اپنے نمائندے مقرر کئے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے حالات سے آگاہ رہتے تھے۔ بعض شہروں کی مسجدیں اور دینی عمارتیں آپٴ ہی کے حکم سے بنائی گئیں؛ جس میں قم میں موجود مسجد امام حسن عسکریٴ بھی شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپٴ اپنے نمائندوں کے ذریعے سے اور علمِ امامت سے تمام محرومیوں سے آگاہ تھے اور لوگوں کی مشکلات کو دور کرتے رہتے تھے۔
📚 مکتب سیرت آئمہ معصومین علیہم السلام
🌎 Sirateaimamasoomin.blogfa.com
📞 Call: +989150693306
📞 Call: +989307831247
.: Weblog Themes By Pichak :.